Showing posts with label 1ST YEAR ISLAMIAT NOTES. Show all posts
Showing posts with label 1ST YEAR ISLAMIAT NOTES. Show all posts

Tuesday, November 12, 2013

ISLAMIAT NOTES

Aqeeda-e-Toheed عقیدہ توحید

ابتدائیہ
کہو اللہ ایک ہے۔ اللہ بے نیاز ہے نہ وہ کسی کا باپ نہ کسی کا بیٹا اور نہ کوئی اس کا ہمسرہے۔
مندرجہ بالا سورة قرآ ن مجید کی وہ مختصر سورة ہے جو مسلمانوں میں سب سے زیادہ تلاوت کی جاتی ہے۔ اس سورة کی ہر آیت میں عقیدہ توحید کی جانب نشاندہی کی گئی ہے۔ اور ہر حوالے سے خدائے ذوالجلال کو احد قرار دیا ہے۔ اس سورة کی ابتداءمیں جو مخاطبانہ اندازِ بیان اختیار کیا ہے وہ اس لئے کہ مسلمان پہلے اپنے اندر عقیدہ توحید کو پختہ کریں پھر اسلام کی باقی تعلیمات پر عمل کریں۔ اس میں ہر ذی شعور اور صاحب عقل انسان کو توحید کا درسِ عام دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ اگر ہم کلمہ طیبہ پر غور کریں تو اس سے بھی ہمیں یہ درس ملتا ہے۔
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
ترجمہ : نہیں کوئی معبود سوائے اللہ کہ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ یعنی اسلام کا باب اسلام کی تعلیمات اور تمام معاملات کا نچوڑ توحید سے شروع ہوتا ہے اور توحید ہی پر ختم ہوتا ہے۔

لغوی و شرعی معنی

توحید کے لغوی معنی ایک ماننا اور ایک جاننا ہے۔ شریعت کی اصطلاح میں توحید ورعقیدہ�¿ توحید یہ ہے کہ اللہ تعالی کو ذات و صفات میں ایک مانا جائے اور اس کے تمام احکامات پر سختی سے عمل کیا جائے۔
 
تمام مذاہب کی تلقین
 
حضرت آدم عہ سے لے کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک جتنے بھی پیغمبرانِ دین گزرے ہیں وہ سب توحید ہی کا پیغام لے کر دنیا پر نازل ہوئے۔ کوئی بھی یہودیت، عیسائیت اور اسلام لے کر نہیں آیا تھا۔ بلکہ سب کا مقصد یہ تھا کہ لوگ کسی نہ کسی خدا کا اعتراف کریں اور اپنے اندا عقیدہ توحید کو پختہ کریں۔ سب کی شریعتوں نے عبادات کے مختلف طرقے بیان کئے مگر بتوں، خداوں اور درختوں کی پوجا میں سب نے کسی نہ کسی خدا کا اعتراف ضرور کیا۔  
الہ کا مفہوم
 
قرآن مجید کی رو سے الہ کا مفہوم یہ ہے کہ کوئی ایسی ذات ہو جو تمام حلقہ زندگانی میں خودمختار ہو، مطلقِ کل ہو، رازق ہو، معبود ہے۔ کلمہ طیبہ کے لفظ میں پوشیدگی کا مفہوم بھی پایا جاتا ہے۔ اس کے معنی وہیں ہیں جو ہندو مذہب میں دیوتا، عیسائیت میں گاڈ (God)اور دیگر مذاہب میں خدا کا ہے۔ کلمہ نے بیان کیا کہ الہ ایک ایسی بابرکت ذات ہے جس کا اسمِ مبارک اللہ ہے۔ یعنی اس وسیع و عریض کائنات میں سوائے اللہ کے اور کوئی ذات ایسی نہیں جو پوجنے کے لائق ہو۔ تم اللہ کے سوا جسے پوج رہے ہو وہ تو محض بت ہیں اور تم ایک جھوٹ گھڑ رہے ہو وہ تمہیں رزق دینے کا اختیار نہیں رکھتے ہیں۔ اللہ کے یہاں سے رزق مانگو اور اسی طرح کی عبادت کرو اس کا شکر ادا کرو اور اسی کی طرف پلٹائے جاو گے۔ اللہ کے سوا کسی دوسرے کو معبود نہ بناو کہ ملامت کے مارے بے کس ہو کر پتھر ہو جاو اور ہمارے پرودگار نے فرمادیا ہے کہ کسی کی عبادت نہ کرو مگر صرف اللہ کی۔
توحید کے دلائل
 
اگر کوئی صاحب عقل اور ذی شعور انسان اپنے ارد گرد کے ماحول پر نظر ڈالے اور ذرا سا غوروفکر سے کام لے تو باآسانی عقیدہ توحید کو سمجھ سکتا ہے۔ حالات و واقعات اس خوبصورت سے توحید کا درس دیتے ہیں کہ انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے اگر اس کے باوجود بھی کوئی شخص اس پر ایمان نہ لاتا اور اللہ کے ہونے سے انکار کرتا ہے تو اس سے زیادہ بیوقوف اور محروم اور کوئی نہیں۔

(۱) وسیع و عریض نظامِ کائنات

سورة ال عمران میں ارشادِ باری تعالی ہے: بے شک آسمان اور زمین کا بنانا دن اور رات کا آنا جانا اس میں نشانیاں ہیں عقلم مند لوگوں کے لئے۔
اگر ہم اس وسیع و عریض کائنات پر غور کریں اور اس سسٹم کا بغور جائزہ لیں تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ یہ کائنات نہایت وسیع ہے۔ ہمارے سامنے تو صرف یہ زمین ہے جس کی وسعت کا ثبوت دینے کے لئے صرف اتنا کہنا ہی کافی ہوگا کہ جدید سہولتوں کے استعمال کے باوجود اس کے سفر میں کئی دن لگ جاتے ہیں۔ پھر اگر ہم سورف پر نظر ڈالیں جو زمین سے ہزاروں سال کے فاصلے پر ہے اور اسی طرح دیگر سیارے جن میں سے زمین کے برابر، کچھ چھوٹے اور کچھ اس سے بھی بڑے ہیں۔ یہ تمام دنیا و سورج اور دیگر سیارے ایک ہی گلیکسی (Galaxy) میں موجود ہیں۔ پھر اس جیسی اربوں (Galaxies) اسی ایک آسمان میں سموئی ہوئی ہیں۔ قرآن مجید کی رو سے اس کائنات میں سات آسمان ہیں اگر ہم زرا دیر کو سوچیں کہ اس وسیع و عریض نظام جس میں زرا برابر بھی نقص نہیں ہے ایک سے زائد خدا چلارہے ہوتے تو یہ سب پل بھر میں تباہ ہوجاتا۔ سب پر غالب اور سب پر حاکم تو ایک ہی قوت ہوسکتی ہے۔
کیا ان لوگوں نے نظر اٹھا کر اپنے اوپر آسمان نہیں دیکھا ہم نے اس کو کیسے سجایا اور اس کے منظر کو کس طرح سجایا اور اس میں کہیں کوئی شگاف نہیں اور اس طرح زمین پر غور کرو ہم نے اس کو فرش کی طرح پھیلا دیا اور اس پر پہاڑوں کے لنگر ڈال دیئے۔ پھر اس میں قسم قسم کی نباتا اگائی بصیرت، ہدایت اور یاددہانی کا سامان ہے یہ اور اس بندے کے لئے جو حق کی طرف رجوع ہو۔
قرآنِ پاک میں ارشادِ باری تعالی ہے:
اور زمین میں جتنے درخت ہیں اگر وہ سب قلم بن جائیں اور سمندر روشنائی جسے پھر سات سمندر روشنائی مہیا کرے پھر بھی اللہ کی باتیں ختم نہ ہونگی۔ بلاشبہ اللہ غالب اور حکمت والا ہے۔

(۲) علوم و فنون کی معراج - توحید

اور وہ آسمان و زمین کا موجد ہے اور جب وہ کسی بات کا فیصلہ کرتا ہے تو اسکے لئے صرف یہی حکم دیتا ہے کہ ہوجاو تو وہ ہوجاتی ہے۔
جدید سائنس اور علوم دورِ حاضر میں اپنی معراج کو پا چکیں ہیں۔ یہ تمام علوم و فنون آج اس نتیجہ پر پہنچ چکیں ہیں کہ اللہ تعالی کا نظامِ قدرت انسانی فطرت کے عین مطابق ہے۔ مثال کے طور پر فزکس کی رو سے کائنات کا ہر زرہ جمال چھوٹے چھوٹے (atoms) یا (Molecules) سے بنا ہے۔ ان (atoms) میں (electrons) پائے جاتے ہیں جو ایک مدارکے گرد گردش کرتے ہیں۔ یہ بات انسانی تحقیق کے بعد سامنے آئی ہے جبکہ اسلام نے قدرت کا یہ طرز’ عمل بہت پہلے واضح کردیا تھا۔ اسلام نے حج میں طوافِ کعبہ کا طریقہ متعین کیا۔ وہ تمام ان اشیاع سے مطابقت رکھتا ہے جو ایک دائرے میں گردش کررہی ہے اور (electrons) بھی (Molecules) میں یہی طریقہ اپنائے ہوئے ہیں۔ یہ تمام حقائق و واقعات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ اس کائنات کو چلانے والی ذات ایک الہ ہی ہے اور اسی کا نظام قدرت کی ہر شے پر نافذ ہے۔
قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:
نہ سورج کی مجال ہے کہ چاند کو پکڑ سکے اور رات دن سے پہلے آسکتی ہے یہ سب ایک ہی دائرے میں تیر رہے ہیں۔

(۳) پیمانہ فکر (اگر ایک سے زیادہ خدا ہوتے؟)

اگر کسی کمپنی کو ایک سے زیادہ مالکان چلائیں تو عام مشاہدے میں یہ بات آتی ہے کہ چھوٹے چھوٹے اختلافات ہر وقت موجود رہتے ہیں اور یہی چھوٹے اختلافات بڑے جھگڑوں کی شکل اختیار کرلیتے ہےں۔ غرض اس نظام کی تباہی کا سبب بنتے ہیں۔
خود ہی سوچئے کہ اگر اس زمین و آسمان کو چلانے والے ایک سے زائد خدا ہوتے تو کیا اس کرہ ارض میں انسانوں اور دیگر مخلوقات سکون و چین کے ساتھ زندگی بسر کرتے اور کیا نظام کائنات بہتر طور پر چل سکتا ہے۔ بعض مذاہب ہیں تو یہ حال ہے کہ ان کا کھانے پینے کا الگ خدا ہے، بارش کا الگ اور دوسرے معاملات کا الگ خدا۔ غرض ہر شعبہ زندگانی کا ایک الگ اور نیا خدا متعین ہے اور تمام خدا ایک دوسرے کے محتاج کی وجہ سے اپنی مرضی سے کوئی بھی کام نہیں کرسکتے غرض انسانی فکر سے یہ بات واضح ہوگئی کہ اس کائنات کو چلانے والے خداوں کی تعداد ایک سے زائد ہونا ناممکن ہے۔
سورة الانبیاءمیں ارشاد ہوتا ہے:
اگر دونوں (زمین و آسمان) کو چلانے والے اللہ تعالی کے علاوہ معبود ہوتے تو دونوں (زمین و آسمان) میں فساد برپا ہوجاتا۔
شرک
 
شرک سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالی کی ذات میں کسی دوسرے کو حصہ دار یا ساتھی ٹھہرایا جائے۔ قرآن مجید میں شرک کو بہت بڑا گناہ قرار دیا گیا ہے: بے شک شرک بہت بڑا بھاری ظلم ہے۔
ایک اور جگہ ارشاد ہوتا ہے:
اللہ یہ بات معاف نہیں کرتا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک بنایا جائے۔
قرآن مجید کی رو سے شرک کی تین اقسام ہیں:

(۱) ذات میں شرک (۲) صفات میں شرک (۳) صفات کے تقاضوں میں شرک
صفات کے تقاضوں میں شرک سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالی جن خصوصیات کا مالک ہے ان کے علاوہ کسی اور کو ان خصوصیات کا ساجھی ٹھہرایا جائے۔ اسی سے مدد طلب کی جائے اور اس کی بندگی و غلامی کی جائے۔ صفات کے تقاضوں میں
شرک علماءکرام کے نزدیک گناہِ عظیم ہے۔ ارشادِ باری تعالی ہے:
اور پکڑتے ہیں اللہ کے سوا کہ شائد ان کی مدد کریں۔ نہ کرسکیں گے ان کی مدد اور یہ ان کی فوج در فوج پکڑی جائے گی۔
سورة ھود مےں ارشادِ باری تعالی ہے:
خدا ہی کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔

عقیدہ توحید کے اثرات
توحید وہ عقیدہ ہے جس پر ایمان رکھتے ہوئے انسان کی شخصیت نکھر جاتی ہے اور اللہ تعالی کی رحمتیں نازل ہوتیں ہیں۔
عقیدہ توحید کے انسانی زندگی پر مندرجہ ذیل اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

(۱) اطمینانِ قلب و روح  
جب انسان اس بات پر یقین کرلیتا ہے کہ اس کا معبود ایک ہے، رازق ایک ہے اور وہ تمام اشیاع پر قدرت رکھتا ہے تو وہ یکسوئی کے ساتھ اسی ایک معبود کی عبادت کرتا ہی ۔ اس خالص بندگی سے اسے جو رجائیت اور اطمینانِ قلب نصیب ہوتا ہے وہ اسے زندگی کی شاہراہ پر رواں رکھتا ہے اور وہ آسانی سے اپنی زندگی کامنشاءپالیتا ہے۔
(۲) خودداری  

معبود واحد کا یقین انسانی شخصیت میں خودداری پیدا کرتا ہے۔ وہ اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ اس کا پالنے والے اللہ ہے اس لئے کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتا اور خودداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے عزت افروز زندگی بسر کرتا ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ: اپنا منہ سب کی طرف سے پھیر کر دین فطرت کی طرف کرلو۔
(۳) پاکیزگی نفس
 
عقیدہ توحید پر پختہ یقین انسان کو اپنے نفس کی حفاظت پر آمادہ کردیتا ہے۔ وہ اپنے نفس کی پاکیزگی کو بڑھانے کے لئے اللہ تعالی کے احکامات کی پیروی کرتا ہے اور قرب الہی کی بدولت اپنے نفس کی پاکیزگی کو بڑھانے کے لئے اللہ تعالی کے احکامات کی پیروی کرتا ہے اور قربِ الہی کی بدولت اپنے نفس کی پاکیزگی و تقوی کے اضافے کے لئے کوشاں رہتا ہے۔
(۴) بہادری
 
جب انسان اس بات پر یقین کرلیتا ہے کہ وہ ایک اللہ کا بندہ ہی اور وہی اللہ اس کی حفاظت کررہا ہے تو اس میں بہادری اور جانثاری کے جذبات پیدا ہوجاتے ہیں۔ یہی مردِ مومن جب میدانِ عمل مین قدم رکھتا ہی تو یہ بہادری اسے اپنے سے دس گنا طاقت کے دشمن سے لڑنے پر آمادہ کردیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں نے کم تعداد کے باوجود کفارومشرکین کی بڑی بڑی فوجوں کو شکستِ فاش دی اور غزوات میں کامیابی سے ہمکنار ہوئے۔

حرفِ آخر


اسلام نے اسی عقیدے کو بنیاد بنا کر تمام نماز و روزے کی ابتدا میں دعا سکھائی ہے:
سب تعریفےں تمام عالموں کے رب کے لئے ہیں جو نہایت رحمن و رحیم ہے۔ اے اللہ! ہم تیری عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔ دکھادے تو ہم کو سیدھا راستہ۔ ان لوگوں کا راستہ جن پر تونے انعام کیا ناکہ ان لوگوں کی راہ جن پر تونے غضب کیا۔ (آمین!)

Monday, November 11, 2013

1st Year Islamiat Notes (اسلامیات) حقوق العباد

   حقوق العباد

حقوق سے مراد

حقوق جمع ہے حق کی جس کا مطلب ہے لازمی اور ضروری۔ حقوق دو قسموں کے ہوتے ہیں:

(۱)حقوق اللہ
(۲) حقوق العباد 


حقوق اللہ 

اللہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن مجید کے ذریعے اپنے سرے حقوق بندوں کو بتادیئے ہیں کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور تمام وہ کام کرو جس کا اللہ اور رسول نے حکم دیا۔
حقوق العباد

عباد جمع ہے عبد کی جس سے مراد ہے انسان یا بندہ۔ اس طرح حقوق العباد کا مطلب ہے بندوں کے لئے ضروری یعنی حقوق۔ حقوق العباد میں دنیا کے ہر مذہب، ہر ذات و نسل، ہر درجے اور ہر حیثیت کے انسانوں کے حقوق آجاتے ہیں۔ اگر ہم عزیزوں کے حقوق ادا کریں تو اس کے ساتھ غیروں کے حقوق بھی ادا کریں۔ غلام اگر مالک کی خدمت کرے تو مالک بھی غلام کا پورا پورا خیال رکھے۔ والدین اگر اولاد کے لئے اپنی زندگی کی ہر آسائش ترک کردیں تو اولاد بھی ان کی خدمت اور عزت میں کمی نہ کرے یہی اسلام کی تعلیم ہے پوری انسانیت کے لئے ۔ حقوق العباد میں مختلف حیثیت اور درجات کے لوگوں کے حقوق آجاتے ہیں۔

تمام انسانوں کے لئے حقوق

جب ہم انسانی حقوق کا ذکر کرتے ہےں تو اس میں مخصوص قسم کے لوگوں کے حقوق نہیں آتے بلکہ پوری انسانیت ہماری نظر کرم اور توجہ کی منتظر ہوتی ہے۔ اسلام نے پوری انسانیت کے حقوق ادا کرنے پر اس قدر زور دیا ہے کہ کسی بھی مذہب میں کچھ نہیں کہا گیا اور یہی وجہ ہے کہ مسلمان قوم کو بہترین امت کہا گیا ہے۔
مسلمان اس لئے سب سے بہترین امت ہیں کیونکہ وہ لوگوں کو نیکی کی ہدایت دیتے ہیں اور برائی سے روکتی ہیں۔ میں اپنے حقوق کو معاف کردوں گا مگر بندوں کے حقوق کی معافی نہیں دے سکتا۔
والدین کے حقوق

قرآن پاک نے والدین کے حقوق پر سب سے زیادہ زور دیا ہے۔ ارشادِ باری تعالی ہے کہ:
ماں باپ کی خدمت گزاری اچھی طرح کرو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہہ دیجئے کہ جوکچھ اپنے مال سے خرچ کروگے اس میں والدین کا بھی حق ہے۔
حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
ماں باپ کا نافرمان جنت کی خوشبو سے محروم رہے گا۔
حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی والدین نے ساتھ عزت و احترام محبت اور خدمت کی سخت تاکید کی تھی۔ ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
تمہاری جنت تمہارے والدین ہیں اگر وہ خوش ہیں تو تم جنت میں جاو گے۔
اولاد کے حقوق

ماں باپ جس طرح اولاد کی پرورش، خدمت اور تعلیم و تربیت کرتے ہیں وہ اولاد کا حق ہے۔ اولاد کی بہترین پرورش اور تعلیم و تربیت ماں باپ کا فرض بن جاتا ہے۔ ایک حدیث اس بات کو اس طرح ثابت کرتی ہے۔
باپ جو کچھ اپنی اولاد کو دیتا ہے ان میں سب سے بہتر عطیہ اچھی تعلیم و تربیت ہے۔
عزیزوں اور قرابت داروںکے حقوق

ہر انسان کے عزیز و اقارب ضرور ہوتے ہیں اور زندگی بھر ان سے تعلق قائم رہتا ہے۔ اللہ نے ان کے بہت سے حقوق مقرر فرمادئیے ہیں:
جوکچھ اپنے مال میں سے خرچ کروگے اس میں والدین کا بھی حق ہے اور قرابت داروں کا بھی۔
حضورپاک صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی عزیزوں اور رشتہ دارون کے حقوق مقرر کردئیے اور فرمایا:
رشتہ داروں سے تعلق توڑنے والا جنت میں نہیں جائے گا۔
اس طرح یہ بات ظاہر ہوگئی کہ قرآن مجید اور احادیث نے عزیزوں اور رشتہ داروں کے بہت سے حقوق مقرر فرمادئیے ہیں۔ یعنی ان کی خوشی اور غم میں شریک ہونا، غریب رشتہ داروں کی مدد کرنا اور اسی طرح کے بہت سے ایسے کام کرنا جن سے رشتہ داروں سے تعلقات خوشگوار قائم رہیں ہمارے فرائض میں شامل ہیں۔

ہمسایوں کے حقوق

ہمسائے کئی قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو ہمارے گھر کے بالکل نزدیک ہوتے ہیں اور عزیز نہیں ہیں۔ دوسرے وہ جو عزیز بھی ہوں اور تیسرے وہ جو ہمارے گھر سے ذرا دور رہتے ہوں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے زیادہ زور ان ہمسایوں پر دیا ہے جو گھر سے بالکل نزدیک رہتے ہےں۔ ان کا ہم پر حق سب سے زیادہ ہے اور وہ ہماری توجہ کے سب سے زیادہ مستحق ہیں۔ ہمیں کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہئے جو ہمارے ہمسایوں کو تکلیف پہنچائے۔ حضورپاک صلی اللہ علیہ وسلم ہمسایوں کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے کہ:
اپنے گھر کی دیواریں اتنی اونچی نہ کرو کہ ہمسایوں کی دھوپ اور روشنی رک جائے۔
اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمسایوں کے حقوق کے بارے میں بہت زیادہ تاکید فرمائی ہے۔ یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو بار بار ہمسایوں کے حقوق اس انداز میں مقرر فرمائے کہ یہ ڈر ہوا کہ کہیں وراثت میں ان کا حق نہ مل جائے۔ لہذا ہمیں ہمسایوں سے حسنِ سلوک سے پیش آنا چاہئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے جس سے ہمسایوں کے حقوق کی مکمل وضاحت ہوجاتی ہے:
کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک وہ خود پیٹ بھر کے کھالے اور اس کا پڑوسی بھوکا رہ جائے۔

استادوں کے حقوق


حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم

مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے۔   اسلام نے تعلیم حاصل کرنے پر بہت زور دیا کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو جو پہلا پیغام ملاتھا وہ لفظ پڑھو سے ملا تھا۔ علم انسان کے لئے اس قدر اہم چیز ہے کہ ماں کی گود سے لے کر قبر تک جاری رہتا ہے اور ہرشخص یعنی مردوعورت، جوان و بوڑھے پر ایک فرض کی طرح عائد کیا گیا ہے۔
جب علم کی اس قدر اہمیت ہے تو معلیم کی اہمیت بھی کچھ کم نہیں ہوسکتی۔ مختصراً یہ کہ والدین جو ہماری پیدائش اور تعلیم و تربیت کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ اور معلم جو ہماری نشونما کے ذمہ دار ہوتے ہیں تو والدین کی طرح سے ہی معلم بھی عزت و احترام کے مستحق ہیں۔ مندرجہ ذیل اقتباس سے معلم اور طالبعلم کے درمیان رشتہ اور حیثیت کی اچھی طرح وضاحت ہوتی ہے:
معلم کی حیثیت بارش جیسی ہوتی ہے اور طالبعلم کی حیثیت زمین جیسی جو بارش کو جذب کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ جو زمین بارش کی فیض و برکات سے سرسبزو شاداب ہوجاتی ہے اس کا مطلب ہوا کہ زمین نے پانی کو اپنے اندر جذب کرلیا جو زمین بارش کے پانی کو ضائع کردیتی ہے وہ بنجر ہوجاتی ہے۔ اسی طرح طالبعلم علم کی بارش کو اپنے اندر جذب کرلیتا ہے وہ خوب سیراب ہوجاتا ہے۔ اور اس کا استاد اسکو آگے جاتا ہوا دیکھ کر حسد نہیں کرتابلکہ خوش ہوتا ہے۔ مسلمانوں میں اس بات کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پہلے زمانے میں شاگرداستاد کے نام کو اپنے نام کا حصہ بنالیتے تھے۔

غلاموں، ناداروں، مسکینوں اور مفلسوں کے حقوق

حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مظلوم طبقے کے حقوق اچھی طرح سمجھائے، مقرر کیے اور ادا کئے۔ یہ طبقہ اسلام سے قبل بڑی ذلت آمیز زندگی گزارتا تھا۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف احادیث میں ان سے کے حقوق مقرر کئے:
بیماروں کی عبادت کرنا ان کا حق ہے، یتیموں کی کفالت کرنا ان کا حق ہے۔
حرفِ آخر

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام انسانوں کی بہتری اور بقاءکے لئے اپنے اعمال، کردار اور اخلاق و اقوال سے ایسا نمونہ پیش کیا جو قیامت تک کے لئے سب کی رہبری کرتا رہے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رحمتِ عالم تھے۔ یہی وجہ تھی کوئی بھی طبقہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی توجہ اور حسن سلوک سے محروم نہ تھا۔ اپ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے پہلے خود حقوق ادا کرتے اور پھر دوسروں کو تاکید فرماتے تھے۔

URDU 2ND YEAR (New Book Modal Paper)