Showing posts with label 2nd year urdu notes. Show all posts
Showing posts with label 2nd year urdu notes. Show all posts

Monday, November 11, 2013

urdu notes نثر نگار کی خصوصیات خَواجَہ حَسن نِظَامِی

نثر نگار کی خصوصیات


خَواجَہ حَسن نِظَامِی

ایک تعارف

رقصاں ہے لفظ لفظ میں اِک موجِ زندگ
بخشا ہے اُس نے نثر کو صدِ کیفِ نغمگی
 
خواجہ علی حسن نظامی اردو انشاءپردازی کے ایک مشہور و معروف ادیب گزرے ہیں۔ اُن کے دلچسپ اور اثرانگیز افسانے اُن کی شہرت کا باعث بنے۔علم دوست شخصیتوں نے علی حسن کے سفرناموں، افسانوں اور مضامین کو اپنے کتب خانوں کی زینت بنایا اور بہت کم عمر میں ہی وہ ایک صاحبِ طرز نثر نگار کی حیثیت سے پہچانے جانے لگے۔ اُنہوں نے معمولی مضامین خوبصورت اور دِل نشین انداز میں رقم طراز کئے اور اردو نثر کو جدت کی راہ پر گامزن کر دیا۔ آپ کی عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے علامہ اقبال فرماتے ہیں
اگر میں خواجہ حسن نظامی جیسی نثر لکھنے پر قدرت رکھتا ہوتا تو کبھی شاعری کو اظہارِ خیال کا ذریعہ نہ بناتا۔ بلاشبہ اردو نثر نگاروں میں خواجہ حسن نظامی کی ذات قابلِ قدر ہے اور وہ ایک منفرد رنگ کے مالک ہیں۔ چند تصنیفات
  • دہلی کا آخری سانس
  • بیگمات کے آنسو
  • آپ بیتی
    • بہادر شاہ کا مقدمہ
  • بیوی کی تعلیم
  • اولاد کی شادی
  • غدرِ دہلی کے افسانے
  • خاک بیتی
  • اوس
  • شہزادی کی بپتا
  • سی پارہدل
  • میلاد نامہ


طرزِ تحریر کی خصوصیات

خواجہ حسن نظامی کے طرزِ تحریر کی خصوصیات درج ذیل ہیں:

(۱)سادگی و سلاست
خواجہ حسن نظامی زبان و بیان کی سادگی سے کام لیتے ہیں اور نہایت سہل زبان کو استعمال کرتے ہوئے بڑے مشکل مطالب بیان کر جاتے ہیں۔عام فہم الفاظ کے خوبصورت استعمال کی بدولت اُن کے نثر کی خوبصورتی برقرار رہتی ہے اور بوجھل پن محسوس نہیں ہوتا۔
بقول رام بابو سکسینہ:
خواجہ صاحب کی تحریریں نہایت سادہ، سلیس اور دلکش ہوتی ہیں۔

(۲) شوخی و ظرافت
زبان کی چاشنی اور چٹکلوں سے خواجہ حسن نظامی نے اپنی تحریروں میں مزاح کا رنگ پیدا کیا ہے۔ وہ جب کبھی مزاح کی چٹکی لیتے ہیں تو عام اور سیدھی بات کو گلاب کی سی رعنائی بخش دیتے ہیں۔ اُن کے مضامین میں عبارات ظرافت، شوخی اور لطافت کی چاشنی سے معمور نظرآتی ہیں۔
مثال کے طور پر وہ اپنے ایک مضمون پیاری ڈکار میں لکھتے ہیں:
یہ نئے فیشن کے مچھر کو زور سے ڈکار نہیں لینے دیتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ڈکار لینے لگے تو ہونٹوں کو بھینچ لو اور ناک کے نتھنوں سے اُسے چُپ چاپ اُڑا دو۔ آواز سے ڈکار لینی بڑی بدتمیزی ہے۔
ایک خط میں لکھتے ہیں:
میڈیکل اسٹور کی طرف جانا ہو تو میرے پیارے ڈاکٹر کا کان مڑوڑ دینا اور پریمی پیارا ملے تو اُسے منہ چڑا دینا۔

(۳) ندرتِ موضوعات
خواجہ صاحب کا کمالِ فن اُس وقت عروج پر نظر آتا ہے جب آپ کے انوکھے اور اچھوتے مضامین نظر سے گزرتے ہیں۔ انہوں نے نہایت انوکھے موضوعات پر خامہ فرسائی کرتے ہوئے اپنی مہارت کی معراج کو پایا اور بڑی خوبصورتی سے اِن مضامین کو پُر لیف بنا دیا۔
ایک مضمون گلاب تمھارا کیکر ہمارا میں لکھتے ہیں:
آخر یہ میاں گُلا ب کس مرض کی دوا نہیں۔ پیٹ میں درد ہو تو گل قند کھلاﺅ، ہیضہ ہو جائے تو گلاب پلاﺅ اور اگر مر جاﺅ تو قبر پر چڑھاﺅ۔
اِس کے علاوہ اُن کا یہ رنگ مندرجہ ذیل مضامین میں نظر آتا ہے:
  • جھینگر کا جنازہ
  • مچھر کا اعلانِ جنگ
  • دیا سلائی
  • مٹی کا تیل
  • فرام قبلہ ٹو شملہ
  • پیاری ڈکار
  • سوز و گداز
علی حسن صاحب کی بعض تحریروں میں درد و الم کا عکس نظر آتا ہے۔ خاص طور پر اُن کی تصنیف غدرِ دہلی کے افسانے کے مطالعے کے بعد ایسا لگتا ہے گویا مصنف نے تحریر اپنے خونِ دل سے رقم کی ہے۔ وہ اس قدر جذباتیت کے ساتھ رنج و الم کی تصویر کشی کرتے نظر آتے ہیں کہ قاری متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔

شہزادی کی بپتا میں لکھتے ہیں:
باﺅ بلبلا گئی۔ وہ کبھی پھول کی چھڑی سے نہ پٹی تھی۔ اب ایسا طمانچہ لگا کہ اُس کے رونے سے مجھ کو بھے بے اختیار روناآ گیا۔

(۵) عارفانہ وصوفیانہ طرزِ بیان
ادیب ہونے کے ساتھ ساتھ حسن علی ایک صاحبِ دل صوفی بھی تھے۔ رشد و ہدایت کی مسند انہیں ورثے میں ملی تھی۔ وہ اپنے خیالات کو قلم بند کرتے ہوئے معرفت الٰہی کے رنگ میں بڑی خوبصورتی سے پرو دیتے ہیں۔ اسلوب میں والہانہ جوش اور ایک سچے عاشق کے دل کی صدا سنائی دیتی ہے۔
بقول رام بابو سکسینہ:
خواجہ صاحب کی کتاب کرپشن بیتی کو اہلِ اسلام اور خاص کراربابِ تصوّف نے بہت پسند کیا۔
(۶) محاورات و اختصار پسندی
نثرنگار کے مضامین کی مقبولیت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ آپ کی تحریروں میں فقرات مختصر اور جامع ہوتے ہیں۔ آپ آزاد کی طرح چھوٹے مگر با محاورہ جملے ترتیب دیتے ہیں جن میں روانی اور لطافت کا عنصر نمایاں طور پر پایا جاتا ہے۔ آپ کی تحریروں میں تسلسل کا دارومدار اِنہیں مختصر،سادہ و شیریں جملوں پر ہے۔

(۷) جذبات نگاری
خواجہ حسن نظامی کی تحریریں انسانی زندگی کے سچے واقعات کی عکاس ہیں۔ آپ اِن واقعات کوترتیب دیتے ہوئے جذبات کے اظہار کا بھرپور خیال رکھتے ہیں۔ مطالعہ کرنے کے بعد قاری کے دل و ذہن پر متاثر کن اثر باقی رہتا ہے جو قاری کے دلی جذبات سے ہم آہنگ ہوتا ہے۔
بیگمات کے آنسو میں وہ لکھتے ہیں:
مجھے بخار چڑھ رہا ہے۔ میری پسلیوں میں شدت کا درد ہو رہا ہے۔ مجھے سردی لگ رہی ہے۔ میری ماں مجھ سے بچھڑ گئی ہے اور بابا حضرت جلا وطن ہو گئے۔ میں اینٹ پر سر رکھے لیٹی ہوں۔ میری بدن میں کنکر چبھ رہے ہیں۔ بابا اٹھو! کب تک سو گے؟


ناقدین کی آراہ

خواجہ علی حسن نظامی کی عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے مختلف نقاد اُن کی تعریف بیان کرتے نظر آتے ہیں۔
صلاح الدین احمد کہتے ہیں:
خواجہ صاحب کو رنج و الم کے مضامین بیان کرنے کا جو سلیقہ ہے اُس میں علامہ راشد الخیری کے علاوہ اُن کا کوئی ہم پلہ نہیں۔
بابائے اردو مولوی عبد الحق بیان کرتے ہیں:
اگر تم صاف ستھری اور نکھری ہوئی اردو پڑھنا اور سیکھنا چاہتے ہو تو خواجہ صاحب کی نثر پڑھو۔ زبان کے ساتھ ساتھ دلّی کے واقعات کا بھی ایک جہاں آباد ہے۔
اُن کے کسی دوست کا کہنا ہے
حسن نظامی کی پیری اور پیرزادی نے اُن کی انشاءپردازی کو چمکایا اور اُن کی انشاءپردازی نے اُن کی پیرزادی اور پیری کو شہرت دی۔
ڈاکٹر کلیم الدین احمد کہتے ہیں:
خواجہ صاحب کا اصل رنگ، خواجہ صاحب کی اصلی اہمیت اُن کی انشاءہے۔ وہ نہایت ہی آسان ، سادہ اور پُر تکلف طرز میں لکھتے ہیں۔
  

Saturday, November 9, 2013

Urdu notes نثر نگار کی خصوصیات سرسید احمد خان

نثر نگار کی خصوصیات 

سرسید احمد خان

حالات ِ زندگی


سرسید احمد خان ۷۱۸۱ءمیں دہلی میں پیدا ہوا۔ والد کا نام میر تقی تھا جو ایک درویش منش بزرگ تھے۔ سرسید کی پرورش میں ان کی والدہ عزیز النساء بیگم کا بڑا ہاتھ تھا۔ جنہوں نے سرسید کی تعلیم و تربیت زمانے کی ضروریات کے مطابق کی۔۸۳۸۱ءمیں سرسید دہلی میں سرشتہ دار کے عہدہ پر مقرر ہوئے اس کے بعد منصفی کا امتحان پاس کرکے منصف ہوگئے۔ ۲۴۸۱ءمیں بہادر شاہ ظفر کی طرف سے ان کو جواد الدولہ عارف جنگ کا خطاب ملا۔

تصانیف

سرسید کی مشہور تصانیف میں مندرجہ ذیل شامل ہیں:

  • آثار الضادید
  • آئین اکبری
  • تاریخ ضلع بجنور
  • رسالہ اسباب بغاوت ہند
  • تصحیح تاریخ فیروز شاہ
  • تین الکلام
  • تفسیر الکلام
  • تفسیرالقرآن
  • خطباتِ احمدیہ

طرزِ تحریر کی نمایاں خصوصیات
سرسید کے طرزِ تحریر کی نمایاں خصوصیات درج ذیل ہیں:

قدیم رنگ 

سرسید نے سب سے پہلے اپنے بھائی کے اخبار سید الاخبار میں مضامین لکھنا شروع کئے۔ آثارالضادید میں وہی قدیم اسلوبِ بیان ملتا ہے۔ بلکہ ۷۵۸۱ءتک سرسید نے جو کچھ لکھا ہے امیں یہی رنگ نمایاں ہے۔ یعنی الفاظ کا بے محل استعمال اور قواعد سے بے پروا۔
وہ تحریر یا تقریر کی رو میں گرامر کی کچھ پرواہ نہیں کرتے تھے ۔وہ ان قیدوں سے جو شاعروں اور منشیوں نے مقرر کی ہیں بالکل آزاد ہیں۔
حالی  
 وہ دور ہی ایسا تھا کہ قواعد کی پابندی سخت نہ تھی۔ الفاظ کی بے ترتیبی عام تھی۔ اردو فقروں میں اکثر دھوکہ ہوتا تھا کہ فارسی کا ترجمہ ہیں لیکن سرسید کو اس امر کا احساس تھا کہ اس قسم کی تحریر بہتر نہیں ہے۔

جدید رنگ

سرسید کی شخصیت بڑی زمانہ شناس تھی۔ انہوں نے زمانے کا رنگ پہچان لیا تھا۔ جنگِ آزادی کی ناکامی کے بعد مسلمانوں کی سیاسی، تمدنی، تہذیبی اور معاشرتی زندگی کا نظام درہم برہم ہوچکا تھا۔ سرسید نے ایک مصلح قوم ہونے کی حیثیت سے اپنا مقصد حیات، مسلک زندگی اور لائحہ عمل متعین کرلیا اور تحریرو تقریر کے ذریعہ قومی و ملکی، مذہبی، معاشرتی، اخلاقی، علمی اور تعلیمی خدمات شروع کیں۔ انہوں نے آثار الضادید کو آسان زبان میں شائع کیا۔

سادگی و روانی

نثر کا روز مرہ کی سادہ بات چیت کی زبان سے قریب تر ہونا بہت ضروری ہے۔ سرسید نے اپنی نثر کو اسی نصب العین پر پورا اتارنے کی پوری کوشش کی ہے۔ اس میدان میں وہ اسٹیل اور ایڈیسن سے متاثر نظر آتے ہیں۔ جس طرح ایڈیسن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس نے ادب کو درباروں اور محلوں سے نکال کر قہوہ خانوں اور بازارون تک پہنچا دیا۔ اسی طرح سرسید نے اردو ادب کو خانقاہ، دربار اور کوچہ و بام سے نکال کر دفتروں، تعلیم گاہوں اور متوسط طبقے کے دل و دماغ تک پہنچا دیا اور اس سے زندگی کی رہنمائی کا کام لیا اور اردو نثر کو اس قابل بنادیا کہ وہ علمی کام کرسکے۔ سرسید پیچیدہ سیاسی مسائل، مذہبی نکات، اور دشوار اصلاحی مباحث کو بھی نہایت صفائی، سادگی اور بے تکلفی کے ساتھ بیان کردیتے ہیں۔ سرسید نے فلسفیانہ، سائنسی اور تنقیدی مضامین میں بھی سادگی کو ہاتھ سے جانے نہیں دیا اور ہر جگہ موضوع کی فطرت کے مطابق زبان استعمال کی ہے۔ انہوں نے کسی بحث میں بھی اصطلاحیں استعمال نہیں کی ہیں بلکہ ہر جگہ ان کی زبان عام فہم اور رواں ہے۔ ان کی تحریر کا جادو ہر شخص کو مسحور کرلیتا ہے۔ ان کا سب سے بڑا کمال اس وقت ظاہر ہوتا ہے جب وہ کسی عملی مسئلہ پر بحث شروع کرتے ہیں اور ان کی بحث اتنی سادہ، رواں اور مدلل ہوتی ہے اسے تسلیم کئے بغیر چارہ نہیں ہوتا۔

مقصدیت

یہ مقولہ کہ طرزِ ادا مصنف کی ہستی کا آئینہ دار ہوتا ہے سرسید پر صادق آتا ہے۔ ان کے طرزِ تحریر میں ان کی ہمہ گیر شخصیت ان کی زندگی اور ان کے ماحول کا مشترکہ ہاتھ تھا۔ سرسید پہلے ایک مصلح تھے پھر ایک ادیب ۔ ان کا طرز ایک ذریعہ تھا مقصد نہیںتھا۔ اپنی بات دوسروں تک پہنچانا یہی حقیقت سرسید کے انداز کا راز ہے۔ انہوں نے اپنی نثر سے قومی اصلاح کا کام لیا ہے۔ یہی وجہ تھی جو سرسید کے لئے کہا گیا:
سرسید سے معقولات الگ کرلیجئے تو وہ کچھ نہیں رہتے۔ مہدی آفادی
تہذیب الاخلاق کے تمام مضامین میں مقصدیت اور تبلیغی رنگ پایا جاتا ہے۔ تبلیغی نثر اردو میں سرسید سے پہلے بھی موجود تھی لیکن اس کی زبان صاف اور سادہ نہیں تھی۔

ظرافت

سرسید ایڈیسن اور اسٹیل سے متاثر ضرور نظر آتے ہیں لیکن انہوں نے ان کا مکمل رنگ اختیار کیا ہے۔ کیونکہ ایڈیسن نے اصلاح احوال کے لئے مزاحیہ انداز اختیار کیا ہے اور اپنے معاشرے کی بد اخلاقیوں اور برائیوں کا دل کھول کر تمسخر اڑایا ہے۔ سرسید میں مزاح نگار کی صلاحیتیں کم تھےں اس لئے وہ مکمل طور پر ان کا رنگ اختیار نہ کرسکے۔ انہوں نے کوشش ضرور کی ہے اور اس سے موقع محل کے مطابق کام لیا ہے۔ اس کی بہترین مثال ان کے مضمون طریق تناول طعام میں ملتی ہے۔ جس میں انہوں نے مزاحیہ انداز میں یہ بتایا ہے کہ مسلمان کس برے طریقے سے کھانا کھاتے ہیں۔

تمثیلی رنگ

مقالات میں تمثیلی رنگ اختیار کرنے کا سہرا سرسید کے سر ہے۔ اس سلسلہ میں ان مضامین میں امید کی خوشی سے بہتر مضمون شاید ہی دوسری زبانوں میں اردو ادب میں تو اس کا ثانی نہیں ملتا۔ سرسید کی فطرت میں چھپی ہوئی رومانیت اس مضمون میں نمایاں ہے۔ اور اس نے اردو نثر نگاری میں ایک نیا باب کھالا ہے۔ اس کا مقابلہ چارلس لیمپ کے مضمون ڈریم چلڈرن سے کیا جاسکتا ہے۔

مقالہ نگاری

اردو ادب کی تاریخ میں سرسید پہلے شخص ہیں جہنوں نے فن مقالہ نگاری کی ابتدا کی۔ سرسید کے اخبارسوسائٹی گزٹ اورتہذیب الاخلاق سے پہلے بہت سے اخباروں اور رسالوں میں مذہبی، اخلاقی اور علمی مقالے شائع ہوئے تھے۔ لیکن سرسید نے نئے موضوعات پر قلم اٹھایا، خوشامد، بحث و تکرار، رسم ورواج اور سویلزیشن وغیرہ پر انہوں نے صاف اور سادہ زبان میں مقالے لکھے۔ سرسید نے آزادی رائے پر ایک اصلاحی مقالہ تحقیقی رنگ میں لکھا۔

تہذیب الاخلاق

انگلستان سے واپسی پر انہوں نے انگلستان کے مشہور اخبارات اسپیکٹیٹر اور ٹیٹلڑ کے انداز پر رسالہ تہذیب الاخلاق نکالا۔ اس سے انہوں نے نہ صرف اپنی نثر نگاری کی ابتدا کی بلکہ اردو نثرنگاری کے لئے ایک صحیح اور سیدھا راستہ کھول دیا۔
سرسید نے کام کی زبان میں کام کی باتیں لکھنا سکھائیں۔ تہذیب الاخلاق نے مردہ قوم میں زندہ دلی کی ایک لہر پیدا کردی ۔ قوم میں ایک غیر معمولی جوش عمل پیدا ہوا ایک نئی زندگی نے انگڑائی لی جس نے ہر شعبہ فکر کو بدل دیا۔ پروفیسر آل احمد سرور

دبستانِ سرسید

سرسید انیسویں صدی کے ہندوستان کی عظیم شخصیت رہبر و مصلح تھے۔ وہ مسلمانوں کے اخلاق، مذہب، معاشرتی زندگی، تعلیم، رسم و رواج اور زبان و ادب وغیرہ کی اصلاح کرنا چاہتے تھے۔ اس اصلاحی کوشش میں ان کو محسن الملک، مولوی چراغ علی، مولوی ذکاءاللہ، حالی نذیر احمد، شبلی نعمانی اور مولوی زین العابدین جیسی شخصیتیں مل گئیں۔ جنہوں نے سرسید کے دوش بدوش اس عظیم مقصد کی تکمیل کی کوشش کی جس کے لئے سرسید نے اپنی پوری زندگی وقف کردی۔ اس تحریک نے مسلمانوں کی کایا پلٹ دی۔

عظمتِ سرسید

سرسید کی عظمت کو ان الفاظ میں بیان کیا جا سکتا ہے:
سرسید نے ادب اور معقولات پر جس حد تک مجتہدانہ رنگ چڑھایادراصل ان کی اولیات میں داخل ہونے کے لائق ہے۔ یہ ان ہی کے قلم کی آواز بازگشت ہے جو ملک مےں بڑے بڑے مصنف کے لئے دلیل راہ بنی۔ آج جو خےالات بڑی آب و تاب اور عالمانہ سنجیدگی کے ساتھ مختلف لباس میں جلو ہ گرکئے جاتے ہیں دراصل اسی زبردست اور مستقل شخصیت کے عوارض ہیں۔ ورنہ پہلے یہ جنس گراں باوصف استطاعت اچھے اچھوں کی دسترس سے باہر تھی۔ سرسید کے کمالات ادبی کا عدم اعتراف صرف ناشکری صرف ناشکری ہی نہیں بلکہ تاریخی غلطیہے۔ مہدی آفادی



2nd year Urdu Khulasa: آرام و سکون

2nd year Urdu Khulasa

 آرام و سکون


تعارف


یہ ڈرامہ جسے یک منظری پلے (One Act Play) کہا جاتا ہے، سید امتیاز علی تاج کا ایک طنزیہ ڈرامہ ہے۔تاج نے اور بھی بہت طویل اور مختصر ڈرامے لکھے لیکن ان کی سب سے مشہور تصنیف ”چچا چھکن“نامی مزاحیہ افسانوں کا مجموعہ ہے، جس میں ایک کردار چچا چھکن کی پر لطف حماقتیں دکھائی گئیں ہیں۔


خلاصہ

اس ڈرامے کا خلاصہ فقط اتنا ہے کہ ایک گھر کا مالک جسے ڈرامے میں میاں دکھایا گیا ہے، اپنے دفتر میں بہت زیادہ کام کرتے رہنے کے باعث تھک کر بیمار ہوگیا ہے۔ ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق اسے پوری طرح آرام، سکون اور تنہائی کی ضرورت ہے لیکن میاں کی سادہ لوح اور کسی قدر غصہ ناک بیوی اپنی دانست میں اس کے لئے جتنے بھی جتن کرتی ہے کہ وہ آرام و سکون پائے اتنا ہی وہ بے آرام اور بے سکون ہوتا جاتا ہے اور آخر کار تنگ آکر وہ پھر اسی دفتر کو جانے کے لئے تیار ہوجاتا ہے جہاں کی محنت، ہنگامہ آرائی اورشور شرابے سے بچنے کے لئے وہ گھر آکر لیٹا تھا، کیونکہ گھر پراس کی بیوی کی حماقتوں کی بدولت دفتر سے بھی زیادہ بے آرامی اور شوروغل وغیرہ پیدا ہوگیا تھا اور میاں کو اپنے گھر سے زیادہ دفتر میں آرام و سکون ملنے کی توقع تھی


2nd year Urdu Khulasa:ہمسفر

2nd year Urdu Khulasa




ہمسفر

تعارف

ہم سفر جدید افسانہ نگار انتظار حسین کے قلم کی تخلیق ہے۔ انتظار حسین ایک علامتی افسانہ نگار ہیں۔ جنہوں نے قیام پاکستان کے بعد تہذیبی روایات کو برقرار رکھا اور اردو افسانے کو جدت کی راہ پر گامزن کیا۔ ان کے افسانوں کا موضوع انسان ہے اور انسان کے اندر پائی جانے والی مختلف جہتوں کو اجاگر کرنا ان کا مقصد۔ ان کے یہاں بیانیہ، تمثیلی اور علامتی ہر قسم کے افسانے ملتے ہیں۔
انتظار حسین غالباً اردو کے پہلے افسانہ نگار ہیں جنہوں نے انسانوں کے اخلاقی اور روحانی زوال کی کہانی مختلف زاویوں سے لکھی ہے- پروفیسر سجاد رضوی
 
خلاصہ
یہ ایک ایسی کہانی ہے جو انسان میں پائی جانے والی ارادے کی کمزوری اور غیر مستقل مزاجی کی عکاسی کرتی ہے۔ افسانہ نگار نے علامتی طور پر ایک شخص کا سفر بیان کیا ہے جو غلط بس میں سوار ہوجاتا ہے۔ دورانِ سفر اس کے ذہن میں مختلف خیالات کا جوار بھاٹا اٹھتا رہتا ہے اور وہ کسی ایک خیال کو بھی عملی جامہ نہیں پہنا پاتا۔ اسے یہ احساس کچھ دیر کے بعد ہوجاتا ہے کہ وہ غلط بس میں سوار ہے لیکن بس کی رفتار اور رش کی وجہ سے وہ کوئی قدم نہیں اٹھاپاتا۔ بس ماڈل ٹاون کی تھی۔ یہ اسے اس وقت پتہ چلتا ہے جب ایک نوعمر لڑکا بدحواسی کے عالم میں پوچھتا ہے کہ کیا یہ بس ماڈل ٹاون جائے گی؟
پہلے تو وہ اگلے اسٹاپ پر اترنے کا فیصلہ کرلیتا ہے۔ لیکن پھر سوچتا ہے کہ وہاں سے دوسری بس باآسانی نہیں مل سکے گی۔ جیسے جیسے اسٹاپ گزرتے جاتے ہیں اسے احساس ہوتا ہے کہ وہ منزل سے دور ہوتا جارہا ہے۔ بالآخر وہ اپنے آپ کو مجبور پاکر فیصلہ کرتا ہے کہ وہ آخری اسٹاپ تک جائے گا اور پھر کوئی فیصلہ کرے گا۔
ماڈل ٹاون کے ذکر سے اسے اپنا دوست یاد آیا جو پہلے ماڈل ٹاون میں رہائش پذیر تھا اور ان دنوں امریکہ جا چکا تھا۔ پھر اسے امریکہ جانے والے دیگر دوست یاد آئے اور پاکستان میں رہ جانے پر افسوس ہوا۔
کنڈکٹر کے تاخیر سے آنے کی وجہ سے اس کے اندر ضمیر اور نفس کی جنگ شروع ہوجاتی ہے۔ بددیانتی اسے ٹکٹ نہ لینے پر اکساتی ہے لیکن وہ ایسا نہیں کرپاتا۔ کچھ دیر بعد جب وہ کنڈکٹر کو کرایہ دے دیتا ہے تو سوار ہونے کی جگہ نہیں بتاتا۔ چنانچہ جب کنڈکٹر کرایہ کم لیتا ہے تو ایک مرتبہ پھر اس کا ضمیر ملامت کرتا ہے اور آخر کار
بقول مصنف:
اس نے آس پاس کے مسافروں پر چور نظر ڈالی۔ سونے والے ہمسفر کو دیکھ کر اطمینان کا ایک سانس لیا اور پیسے اور ٹکٹ جیب میں رکھ لئے۔
اس کا سفر جاری رہتا ہے۔ مختلف مقامات پر سے سوار ہونے والون کی بے قراری اور اترنے والوں کی بدحواسی، سیٹوں پر بیٹھنے کے لئے مسافرون کی کھنچا تانی اور کسی مسافر کی زبانی کہیں کی کہانی سب سنتا اور دیکھتا رہتا ہے۔
پہلے تو اس نے سوچا تھا کہ وہ غلط بس میں سوار ہوگیا ہے لیکن اب اسے احساس ہوتا ہے کہ صحیح اور غلط تو مسافر ہو تے ہیں۔ بس تو اپنے ہی راستے پر چلتی ہے۔ پھر اس کے ذہن میں یہ خیال ابھرتا ہے کہ اس کا کوئی ہمسفر نہیں ہے کیونکہ دیگر افراد تو اپنی منزل کی جانب گامزن ہیں جبکہ وہ تنہا ہی غلط راستے پر چل رہا ہے۔
منتشر افکار کے اس سفر کے ساتھ ساتھ بس کا سفر بھی جاری رہتا ہے۔ یہاں تک تمام مسافر ایک ایک کرکے اتر جاتے ہیں۔ بس میں صرف وہ یا بھر اس کا مدہوش ہم سفر باقی رہ جاتاہے جو اس کے دکھتے کاندھے پر سررکھے سورہا تھا۔ یہ مختصر سا سفر حیاتِ انسانی سے بھرپور مماثلت رکھتا ہے۔ جس کا ذکر افسانہ نگار نے بھی کیا ہے۔ انسانی زندگی کا سفر بھی مختلف احساسات و جذبات اور فیصلوں کی کشمکش کا نام ہے جس کو طے کرنے کے لئے صحیح وقت پر صحےح قدم کی ضرورت ہے۔
بقول شاعر

زندگی کیا ہے کسی سہمی ہوئی آنکھ سے پوچھ
صرف ایک خوابِ پریشان، جو دیکھا نہ جائے


2nd year Urdu Khulasa : مجسمہ

2nd year Urdu Khulasa


مجسمہ
 
تعارف
یہ خوبصورت کہانی مجسمہ غلام عباس کے قلم کی وہ تخلیق ہے جس سے ان کی فنی زندگی کا آغاز ہوا۔ غلام عباس جدید اردو افسانے کے منفرد اہلِ قلم ہیں۔ آپ حقیقت و سچائی کا کلیہ مشاہدہ کرکے تجرباتِ زندگانی کو صفحہ قرطاس پر منتقل کرتے ہیں۔ آپ کا طرزِ نگارش سادہ، سلیس اور دل کش ہوتا ہے۔
غلام عباس کے ساتھ افسانے کا ایک عہد ختم ہوگیا۔ وہ اس بزم کے آخری چراغ تھے۔ شوکت صدیقی


خلاصہ
  اس کہانی کا مرکزی کردار بادشاہ ہے جو اپنی حسین وجمیل ملکہ سے بے پناہ محبت کرتا ہے۔ ایک شوہر کی حیثیت سے وہ ملکہ کو اپنی جذباتی زندگی کی تسکین کا وسیلہ سمجھتا ہے اور گھر میں بے ساختگی کی فضا چاہتا ہے۔ ان تمام احساسات کو سمجھنے کے باوجود ملکہ خدمت و اطاعت کا پیکر بن کر رہتی ہے اور انانیت اور خودداری کے خول سے باہر نہیں آتی۔ ملکہ کا یہ مصنوعی رویہ بادشاہ کو تکلیف پہنچاتا جس کی بدولت وہ ملکہ سے، اپنی سلطنت سے اور پھر خود سے بھی دور ہوتا چلا جاتا ہے۔
عمائدین سلطنت بادشاہ کا غم بانٹنے کے لئے طرح طرح کی کوششیں کرتے ہیں۔ اس کے باوجود بادشاہ کا نفسیاتی خلاء بڑھتا چلا جاتا ہے۔ البتہ اس کے بے کیف دل کو مصوری اور سنگ تراشی میں ہی اپنے احساسات کی تسکین ملتی ہے۔ اور پھر ایک دن جب ایک بوڑھا سنگ تراش بادشاہ کی خدمت میں ایک چھوٹا مگر انتہائی خوبصورت مجسمہ پیش کرتا ہے تو بادشاہ خوشی سے نہال ہوجاتا ہے اور بوڑھے صناع کو بے بہا انعام و کرام سے نوازتا ہے۔
اس احساسات سے پر مجسمے کو بادشاہ اپنی خوابگاہ میں سجالیتا ہے۔ وہ پہروں اسے دیکھتا اور جذبات کی دل فریب دنیا میں کھوجاتا ۔ مجسمے میں بادشاہ کی یہ محویت دیکھ کر ملکہ کے مصنوعی خول میں ہلچل مچ جاتی ہے۔ آہستہ آہستہ اس کے دل میں رشک، حسد بلکہ رقابت کے جذبات پیدا ہونے لگتے ہیں۔ ان جذبات کی تسکین کے لئے ملکہ مختلف طریقے اختیار کرتی تاکہ وہ بادشاہ کی توجہ حاصل کرسکے۔ بادشاہ کو یہ مجسمہ پہلے سے کہیں زیادہ عزیز ہوجاتاہے کیونکہ اسی کی وجہ سے ملکہ کے پتھر دل میں جذبات کی دنیا آباد ہونے لگتی ہے۔
مجسمے میں بادشاہ کی دلچسپی اور ملکہ کی رقابت دن بدن بڑھتی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ ملکہ اس مجسمے کو باقائدہ نقصان پہنچانا شروع کردیتی ہے۔ پہلے اس کے منہ پر سیاہی کے دھبے لگاتی ہے اور پھر اسکے اعضاءتوڑ دیتی ہے۔ بادشاہ بظاہر بے خبر تمام لونڈی غلاموں کو سزا بھی دیتا ہے لیکن سمجھ رہا ہوتا ہے کہ ملکہ کے دل پر کیا گزرہی ہے۔
پھر ایک دن جب وہ سوکر اٹھتا ہے تو یہ دیکھ کر اس کے منہ سے چینخ نکل جاتی ہے کہ مجسمے ٹکڑے ٹکڑے ہوچکا ہے۔ لیکن یہی وہ وقت تھا جب بادشاہ کامیاب ہوگیا۔ ملکہ کا انا کا بت بھی پاش پاش ہوگیا اور ملکہ بادشاہ کے قدموں میں تمام تر محسوسات کے ساتھ موجود تھی۔
بادشاہ کی خوابگاہ میں رکھے مجسمے اور ملکہ کی انا کے مجسمے کے ٹوٹتے ہی عورت کو وہ فطری روپ ظہور میں آتا ہے جس کے تحت وہ ہزار انانیت کے باوجود اپنے شوہر کی توجہ کہیں اور برداشت نہیں کرپاتی۔
بقول شاعر
بت شکنی کا مرتبہ یوں تو بلند ہے مگر
اپنے ہی خاص لطف ہے صنعتِ آذری کے بھی








Friday, November 8, 2013

2nd year Urdu Khulasa -چور

2nd year Urdu Khulasa




چور
تعارفِ افسانہ
اشفاق احمد صاحب کا یہ افسانہ چور ان کے مجموعے سفرِ مینا سے انتخاب ہے۔ زندگی نام ہے آزمائش کا، امتحان کا۔ زندگی کی اس گاڑی کو چلانے کے لئے اچھی سوچ، اچھی عقل اور اچھی رہنمائی کی ضرورت ہے۔ اگر یہ تینوں چیزیں میسر ہوں تو وہ ایک کامیاب انسان بنتا ہے لیکن ان کی عدم موجودگی کی صورت میں انسان غلط روی اختیار کرکے اپنی دین و دنیا دونوں تباہ کرلیتا ہے اور یہی حقیقیت اشفاق صاحب کے افسانہ کی بنیاد ہے۔

تعارفِ مصنف
اشفاق احمد کے بارے میں لکھتے ہیں:
اشفاق صاحب معاشرے کے سچے اور بے باک ترجمان ہیں۔ ان کا افسانہ ہو یا ڈرامہ وہ اسمیں جذباتِ انسانی کی عمدہ عکاسی کرتے ہیں۔ احمد ندیم قاسمی  

مرکزی خیال
اشفاق صاحب کا یہ افسانہ معاشرے پرایک دردناک طنز ہے۔ اور اس کا مرکزی خیال کچھ یوں ہے:
کوئی انسان ماں کی گود سے بدکردار اور برا بن کر پیدا نہیں ہوتا بلکہ یہ معاشرے کی ناہمواریاں ہی ایسے کرداروں کو جنم دیتی ہیں اور پروان چڑھاتی ہیں۔

خلاصہ
ایک چور رات کے اندھیرے میں ایک غریب خاندان کے گھر میں چوری کی نیت سے داخل ہوتاہے۔ کمرے میں داخل ہوکر ایک الماری کھولتا ہے جس میں دواوں کی شیشیاں بھری ہوتی ہیں۔ اسی الماری کے خانے میں سے اسے ایک لفافہ ملتا ہے جس میں ایک سو ستر روپے اور ایک خط رکھا ہوتا ہے۔ چور لفافہ منہ میں دبا کر مسروروشادمان نکل جاتا ہے۔ گھر پہنچ کر لفافہ کھولتا ہے اور خط نکال کر پڑھتا ہے۔
خط میں کسی شکیلہ بیگم نے اپنے بھائی کو اپنے بیمار بیٹے کے علاج کے لئے رقم نہ دینے پر شکوہ کیا تھا اور لکھا تھا کہ ادھار وغیرہ لے کر علاج کے لئے رقم مہیا کرلی گئی ہے اور وگ بیٹے کو بغرضِ علاج پنڈی لیجانے والے تھیں۔ یہ حقیقیت جان کر چور کو سویا ہوا ضمیر بیدار ہوگیا۔ رات اس نے سخت اضطراب میں کاٹی اور صبح رقم لوٹانے گھر سے نکلا مگر اسے جائے واردات پر پولیس والے تفتیس کرتے نظر آئے۔ وہ خوفزدہ ہوکر داتا دربار چلا گیا۔ اسکا ضمیر اسے چین نہ لینے دیتا تھا۔ اگلے دن وہ پھر شکیلہ بیگم کے گھر کی طرف گیا۔ اس نے چاہا کہ رجسٹری کا لفافہ پیسوں سمیت اندر اچھا ل دے لیکن ہمت نہ ہوئی۔
چور رات پھر اپنے ضمیر سے لڑتا را اور بالآخر اس کے آگے ہتھیار ڈال دئیے۔ صبح کو نہا دھو کر سیدھا شکیلہ بیگم کے گھر پہنچا کنڈی کھٹکھٹا کر انتظار کرنے لگا کہ جونہی دروازہ کھلے وہ لفافہ اندر پھینک کر روانہ ہوجائے گا۔ دروازہ کھلا لیکن چور کی ہمت نہ ہوئی۔ اس نے یونہی بات بنادی اور وہاں سے چلا آیا۔
اسکے ضمیر نے پھر اس کی لعنت ملامت شروع کردی اور بالآخر اس کی قوت مدافعت جواب دے گئی۔ اس نے ایک ٹرانزسٹر ریڈیو چرا کر بیچ دیا اور قصور وقت گزارنے چلا گیا لیکن یہاں بھی اس کا ضمیر آسودہ نہ ہوسکا۔ ایک ہفتے کے بعد وہ پھر لاہور آیا اور سیدھا شکیلہ بیگم کے گھر پہنچا۔ جب وہ گلی کے موڑ پر پہنچا تو اندر سے بچے کا جنازہ باہر نکل رہاتھا۔ بچے کی حالت بہت خراب تھی۔چور نے آگے بڑھ کر میت کو کندھا دیا۔ بہت سے لوگ باتیں کررہے تھے اور چور کو برا بھلا کہہ رہے تھے جس نے سفرخرچ کی رقم چرا کہ بچے کی جان لے لی تھی۔
چور کے ضمیر نے اس کی گردن پر زور سے دھپا مارا۔ وہ سڑک پر گر گیا۔ لوگوں نے پکڑ کر اسے اٹھایا۔ جنازہ میانی صاحب پہنچ گیا۔ تدفین سے فارغ ہوکر لوگ گھروں کو لوٹ گئے۔ چور نے پھولوں کی ایک ٹوکری خریدی اور سقے کو پیسے دے کر ساری قبر پر چھڑکاو کوایا اور سارے پھول قبر پر ڈال دیے اور بہت دیر وہاں بیٹھا رہا۔ اس نیک کام کی بدولت اس کے ضمیر کا بوجھ بالکل ختم ہوگیا۔



URDU 2ND YEAR (New Book Modal Paper)