Showing posts with label Matric Urdu Notes Class 10th. Show all posts
Showing posts with label Matric Urdu Notes Class 10th. Show all posts

Thursday, November 14, 2013

سومناتھ کی فتح سوالات اور جوابات

Metric Urdu Notes 

سوالات اور جوابات

سومناتھ کی فتح

سوال۱ حسن میمندی کون تھا اور اس نے محمود غزنوی کی خدمت میں کیا عرض کیا؟
 
جواب: حسن میمندی کا شمار محمود غزنوی کے ذہین اور وفادارارکانِ دولت میں ہوتا تھا اور یہ ایک مخبر تھا۔ ایک دن محمود غزنوی نے ارکانِ دولت کو جمع کیا اور ان سے کسی ایسی مملکت کے بارے میں پوچھا جس کو فتح کرکے خزانے کو زروجواہر سے بھردیا جائے تو سب نے سومناتھ کا نام لیا۔ حسن میمندی نے اس جگہ کے بارے میں مزید معلومات فراہم کرتے ہوئے جو کچھ عرض کیا اس کا خلاصہ ہے کہ قبلہ عالم! جس جگہ سومناتھ دیوتا ہے اس مندر میں جواہرات اتنی بڑی مقدار میں موجود ہے کہ مندر کو منور رکھنے کے لئے صرف ان جواہرات کی روشنی ہی کافی ہے۔ غرض وہاں کی ہرشے زروجواہر کا شاہکار ہے۔ وہاں بطورپجاری تقریباً دوہزار برہمن موجود ہیں۔ علاوہ اس کے لونڈیاں اور گوئیے بھی وہاں کی رونق میں اضافہ کرتے ہیں۔ ان کو تمام سہولتیں مندر سے مہیا کی گئی ہیں۔
سوال۲ ملتان سے گجرات تک کا سفر کیسا تھا اور محمود غزنوی نے اس کے لئے کیا تیاری کی؟
 
جواب: ملتان سے گجرات تک کا سفر بڑا دشوار تھا۔ محمود غزنوی کو معلوم تھا کہ راستے میں ایسے ریگستان اور چٹیل میدان ہیں کہ جہاں کوسوں تک پانی اور گھاس کا نام و نشان نہیں ملتا۔ اس لئے اس نے حکم دیا کہ ہر شخص کئی کئی دن کا کھانا پانی اپنے ساتھ لے لے۔ اور سرکارِ شاہی سے بھی دوہزار اونٹ رسد کے دانے اور گھاس پاس سے لدوا کرلیے گئے۔
سوال۳ محمود غزنوی نے تارا گڑھ کے قلعے پر حملہ کیوں نہیں کیا؟
 
جواب: محمود غزنوی نے تارا گڑھ کے قلعے پر حملہ وقت کی کمی کی وجہ سے موقوف کیا کیونکہ اس کے محاصرے میں کئی دن صرف ہوجاتے اور سومناتھ پہنچنے میں دیر ہوجاتی جس کا فتح ان کا حقیقی مقصد تھا۔
سوال۴ محمود غزنوی کے لشکر کو دیکھ کر سومناتھ کے پجاریوں نے کیا کہا؟
 
جواب: محمود غزنوی کے لشکر کو دیکھ کر سومناتھ کے مندر کے پجاریوں نے کہا ’اے مسلمانو! تم اپنی فوج اور لشکر کے گھمنڈ پر ہمیں لوٹنے آئے ہو تمہیں یہ خبر نہیں کہ دھرم پرماتما ہمارا اس واسطے تمہیں یہاں لایا ہے کہ جو جو مندر اور شوالے تم نے ہندوستان میں توڑے ہیں ان سب کی سزا یہاں دے گا۔“
سوال۵ پہلے دن کے معرکے میں جو کچھ ہوا تحریر کریں۔
 
جواب: پہلے دن کے معرکے میں محمود غزنوی پوری جنگی تیاریوں کے ساتھ میدان جنگ میں داخل ہوا۔ مسلمانوں کے جذبات میں ایک تلاطم برپا تھا۔ مسلمانوں کے اسی جوش و جذبے کے ساتھ جنگ کی ابتداءکی اور ایسے تیر برسائے کہ ہندووں کو بھاگتے ہی بنی۔ تمام ہندو مندر کے اندر جاکر چھپ گئے مسلمانوں نے فصیل تک رسائی حاصل کی اور بآواز بلند ”اللہ اکبر“ کا نعرہ بلند کیا۔ راجپوتوں کو بھی جیسے جوش آگیا۔ وہ بھی میدان میں آکر مسلمانوں سے دست بستہ ہوگئے۔ بڑا زوردار معرکہ ہوا لیکن کسی بھی فریق کی شکست کے کڑوے گھونٹ سے آشنائی نہ ہوسکی اور بالآخر دونوں فریق رات ہوتے ہی اپنے اپنے مقام پر پہنچ گئے۔
سوال۶ محمود غزنوی کے لشکری پہلے دن کے معرکے کے بعدکیا سوچ رہے تھے؟
 
جواب: اہلِ لشکر افتاں و خیزان حالت ہی میں یہ سوچنے پر مجبور تھے کہ کہاں تو وہ جنت جیسی حسین سرزمین پر سکون سے رہ رہے تھے اور کہاں اس ریگستان اور بیابان میں مفلوک حالی کی حالت میں بے دست و پا اپنے گھروں سے ہزاروں میل کی مسافت پر پڑے ہیں جہاں اللہ کے سوا کوئی ان کا ہمدرد و غمگسار موجود نہیں۔ پس اگر اللہ کو منظور ہوا تو اسی صورت میں ہم گھربار کو واپس لوٹ سکتے ہیں۔
سوال۷ جب محمود غزنوی سومناتءکا بت توڑنے لگا تو پجاریوں نے اس سے کیا کہا؟
 
جواب: جب محمود غزنوی سومناتھ کے بت کو جو کہ ہند�¶ں کے لئے ان کا عظیم ترین دیوتا تھا توڑنے لگا تو پجاری اس کے قدموں میں گرگئے اور کہنے لگے کہ اس بت کو نہ توڑو اس کے بدلے میں جتنی چاہے دولت لے سکتے ہو۔
سوال۸ محمود غزنوی نے پجاریوں کو کیا جواب دیا؟
 
جواب: اسلام کے اس قابل فخر فرزند کو پجاریوں نے دولت کا اتنا بڑا لالچ دیا لیکن ان کی تمام آہ وزاری صدا بصحرا ثابت ہوئی اور محمود نے ان کی کوئی پیش کش قبول نہیں کی اور کہا کہ میرے نزدیک بت فروش نام پانے سے بت شکن ہونا بہتر ہے۔
سوال۹ محمود غزنوی نے اپنے لشکر کے جانبازوں سے مخاطب ہوکر کیا کہا؟
 
جواب: مسلمان اپنی ناگفتہ بہ حالت سے خاصے پریشان نظر آتے تھے ایسی حالت میں محمود غزنوی نے مسلمان افواج سے خطاب کرکے انہیں کہا کہ دشمن نے ہمیں چاروں اطراف سے گھیر رکھا ہے ہم اپنے وطن عزیز سے ہزاروں میل کی مسافت پر ہیں۔ سوائے اللہ کے ہمارا کوئی مدد کرنے والا نہیں ہے۔ ہمیں اپنا حاصلہ بلند رکھنا چاہئے تاکہ ڈٹ کر دشمن کا مقابلہ کرسکیں۔ اگر ہم جیت گئے تو غازی کہلائیں گے اور اگر مرگئے تو شہید کہلائے جانے کے مستحق ہونگے اور یہی ایک مسلمان کی زندگی کا مقصد ہوتا ہے۔
سوال۰۱ محمود غزنوی کے ایمان مستحکم کا اسے کیا صلہ ملا؟  
جواب: محمود غزنوی نے پجاریوں کی پیش کش کو ٹھکرا کر گویا دنیاوی زندگی کے پرتعیش لمحات سے منہ موڑ لیا اس کا صلہ اسے دنیا ہی میں مل گیا وہ اس طرح سے کہ جب محمود غزنوی نے بت توڑا تو اس میں سے بے پناہ دولت نکلی گویا دولت ہفت قلیم حاصل ہوگئی اور یہ دولت اس دولت سے کہیں زیادہ تھی جو پجاری اسے دینے پر رضامند تھے
 
 
 

سوالات اور جوابات گزرا ہوا زمانہ

Matric Urdu Notes

سوالات اور جوابات


گزرا ہوا زمانہ

سوال۱ بوڑھا اپنے ماضی پر کیوں افسوس کررہا تھا؟
جواب: بوڑھا اپنے ماضی پر اس لئے افسوس کررہا تھا کہ اس نے پورے ماضی میں نیکی کا کوئی کام نہیں کیا تھا۔ ادھیڑ عمر میں جو کوئی نیکیاں، روزہ و نماز کے طور سے بٹوری تھیں ان میں تعلق صرف اس کی اپنی ذات اور مفاد سے تھا۔ اور نہ ہی اس نے خدمت خلق کے لئے کچھ کیا تھا۔ جبکہ سرسید کے نقط�¿ہ نظر سے دوسروں کے کام آنا ہی سب سے بڑی نیکی ہے۔

سوال۲ آنکھ کھلنے پر لڑکے نے کیا فیصلہ کیا؟
جواب: آنکھ کھلنے پر لڑکے نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنی زندگی کو نیکی اور دوسروںکی بھلائی کے کاموں میں صرف کرے گا اور رفاہِ عامہ کے کاموں کو اپنی زندگی کا مقصد بنالے گا۔ اس طرح وہ ’نیکی کی دلہن‘ حاصل کرسکتا ہے۔

سوال۳ مصنف نے اس مضمون میں اپنی قوم کے نوجوانوں کو کیا نصیحت کی ہے؟
جواب: مصنف نے اس مضمون میں نوجوانوں کو بڑی حقیقت افروز نصیحتوں سے روشناس کروایا ہے۔ مصنف کہتے ہیں کہ وقت کا چرنا چلتا چلا جاتا ہے اور زندگی کی ڈور اس پر لپٹتی چلی جاتی ہے اور بالاخر اس کا آخری سرا بھی کھینچ لیا جاتا ہے اور یہی وہ وقت ہوتا ہے جبکہ روح اپنے قالب سے جدا ہوجاتی ہے۔ اس سے پہلے ایک وقت ایسا آتا ہے جب انسان اپنی گزری ہوئی زندگی پر افسوس کرتا ہے اور سوچتا ہے کہ میں نے دنیا میں نیکیوں کے انبار میں سے کوئی بھی نیکی حاصل نہ کی اور آخرت کے لئے میرے پاس کوئی پونجھی نہیں ہے۔ مصنف اس لمحہ فکریہ کی طرف اشارہ کرکے کہتے ہیں کہ تم ایسا وقت آنے سے پہلے ہی سنبھل جا�¶ اور انسانی بھلائی کو اپنا اولین مقصد بنالو اور آخر میں مصنف دعاگو ہیں کہ خدا کرے کوئی ایسا شخص، ایسا جوان اٹھے جو مسلمانوں کے لئے خضرِ راہ کا کام سرانجام دے سکے۔

URDU APPLICATIONS AND LETTERS

خط اور درخواستیں

ٹریفک کا شعر، دھواں اور فضائی آلودگی سے متعلق اخبار کے مدیر کے نام درخواست


کمرہ امتحان
کراچی
۵۱ مارچ ۰۰۰۲ئ
مدیر محترم
روزنامہ جنگ کراچی
اسلام وعلیکم!
میں آپ کا روزنامہ باقاعدگی کے ساتھ پڑھتا ہوں۔ مجھے یہ دیکھ کر انتہائی خوشی ہوئی ہے کہ آپ نے اپنے اخبارکا ایک صفحہ عوامی شکوے ، شکایات اور مسائل کی اشاعت کے لئے وقف کردیا ہے تاکہ لوگوں کے مسائل موثر انداز میں متعلقہ حکام تک پہنچ سکیں۔
لہذا میں آپ کے اخبار کی وساطت سے متعلقہ حکام کے علم میں یہ بات لانا چاہتا ہوں کہکراچی کی روز بروز آبادی بڑھتی ہی چلی جارہی ہے۔ اس ہی لحاظ سے مسلسل ٹریفک میں اضافہ ہورہا ہے۔ گنجان آباد اور بازاروں میں سڑکوں کی تعمیر کے وقت بڑھتی ہوئی آبادی کا خیال نہیں رکھا گیا۔ مزید یہ کہ ناجائز تجاویزات کی وجہ سے سڑکیں اور گلیاں تنگ ہوگئی ہےں۔ اس لئے ہروقت ٹریفک جام رہتا ہے۔ ڈرائیور حضرات ایک دوسرے سے آگے نکلنے، سواریاں زیادہ سے زیادہ اٹھانے کے لئے ہارن پر ہارن بجاتے ہیں اور گاڑےوں سے دھواں چھوڑتے رہتے ہےں۔ ان سے اتنا دھواں خارج ہوتا ہے کہ دم گھٹنے لگتا ہے۔ شوروغل کی وجہ سے انسانی سماعت بھی متاثر ہوتی ہے۔ لاقانونیت کا یہ عالم ہے کہ اسکول، مدرسہ، اسپتال اور مسجد کچھ نہیں دیکھتے اور ہارن کے شور کے ساتھ ٹیپ ریکارڈر کا شور بھی شامل کردیتے ہیں۔ اگر ٹریفک کا شور اور دھواں اسی طرح بڑھتا رہا تو لوگوں کی سماعت، انکے دل اور پھیپھڑے متاثر ہونگے اور کئی طرح کی نئی نئی بیماریاں جنم لیں گی اس لئے حکومت کو چاہئے کہ وہ ابھی سے اس مسئلہ کا حل تلاش کرے۔
امید کرتا ہوں کہ آپ میری یہ عرضداشت حکامِ بالا تک پہنچانے کا ذریعہ بنےں گے اور متعلقہ حکام معاملے کی نزاکت کو محسوس کریں گے اور احساسِ ذمہ داری سے کام لیتے ہوئے اس مسئلے کے جلد حل کے لئے موثر اقدامات کریں گے۔

فقط
آپکی عنایتوں کا طالب
ا - ب -ج

بجلی کے قلت سے متعلق اخبار کے مدیر کے نام ایک مراسلہ


کمرہ امتحان
کراچی
۵۱ مارچ ۰۰۰۲ئ
مدیر محترم
روزنامہ جنگ کراچی
اسلام وعلیکم!
جناب میں آپ کے اخبار کی وساطت سے ایک اہم مسئلہ کی طرف محکمہ بجلی (k.e.s.c.) کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں بڑی مہربانی ہوگی۔ آپ میری یہ تحریر مراسلات کے کالم مےں اولین فرصت میں شائع فرمائیں۔
ہمارے علاقے میںبجلی کی آنکھ مچولی روزانہ کا معمول بن چکی ہے۔ کبھی کبھی تو بجلی گھنٹوں تک نہیں آتی ستم بالائے ستم یہ کہ اکثر بجلی عین رات کو اس وقت چلی جاتی ہے جب ہم امتحان کی تیاریوں میں مصروف ہوئے ہیں۔ ہمارا موڈ خراب جوجاتا ہے۔ حوصلے اور امنگ پر اوس پڑجاتی ہے اور پھر وہ پھر وہ پہلی سی گرمجوشی نہیں رہی۔ اس سے ہمارا وقت ضائع ہوتا ہے اور امتحان میں ہماری کارکردگی متاثر ہوسکتی ہے۔
امید کرتا ہوں کہ متعلقہ حکام معاملے کی نزاکت کو محسوس کریں گے اور احساسِ ذمہ داری سے کام لیتے ہوئے بجلی کے انتظام کو جلد ازجلد درست کریں گے۔

فقط
آپکی عنایتوں کا طالب
ا - ب -ج




امتحان کی تیاری کے لئے چھوٹے بھائی کو خط


کمرہ امتحان
کراچی
۵۱ مارچ ۰۰۰۲ئ
پیارے بھائی،
خوش رہو
تین دن قبل تمہارا خط پاکر مجھے بہت خوشی ہوئی۔ تم نے بتایا کہ ڈیڑھ مہینہ بعد تمہارے امتحان ہورہے ہیں اور یہ سن کرمجھے بہت خوشی ہوئی کہ تم امتحان کی تیاریوں میں مصروف ہو۔
میں تمہیںاپنے تجربات و مشاہدات کی روشنی میں چند ہدایات دے رہا ہوں اور ان پر عمل کرکے انشاءاللہ تم امتحانات میں نمایاں کامیابی حاصل کرسکتے ہو۔ مجھے امید ہے کہ تم میرے مشوروں پر عمل کرنے کی پوری کوشش کروگے۔
سب سے پہلے تو تم آج ہی اپنا روزمرہ کا ایک ٹائم ٹیبل بنالو اور اس میں نصاب کے تمام مضامین کے لئے وقت مقرر کردو کسی ایک مضمون کو بھی اپنی توجہ سے محروم نہ رکھو۔ یہ تمہارے لئے باعثِ نقصان ہوگا۔ اپنا مقررہ اوقات پر عملدرآمد کے لئے تمہیں صبح سویرے اٹھنا ہوگا فجر کی نماز کے بعد اور اسکول جانے کی تیاری تک کچھ نہ کچھ ضرور یاد کرلو۔ کوئی بھی عنوان یاد کرو اسے لکھ کر ضرور دیکھناچاہئے۔ نصاب کی کتابوں میں جو بھی مشکلات پیش آئیں ان کے لئے فوراً اساتذہ کرام سے تعاون حاصل کرنا چاہئے۔ شام کے وقت کھیل کود میں بھی ہصہ لینا چاہئے۔ اہم کاموں کے علاوہ دیگر کاموں میں وقت ضائع نہ کرو۔ زیادہ سے زیادہ وقت پڑھائی کرنے کی کوشش کرو۔ اور رات کو جلد سوجا�¶ تاکہ صبح کو جلدی اٹھ سکو۔
میں اور تمام گھر والے تمہاری کامیابی کی دعا کریں گے اور ہم انتظار کررہے ہیں کہ کب تم امتحان سے فارغ ہوکر گھر ٓآو گے۔

فقط
تمہارا بڑا بھائی
ا - ب -ج



پانی کی قلت سے متعلق کونسلر کے نام درخواست

کمرہ امتحان
کراچی
۵۱ مارچ ۰۰۰۲ئ
بلگرامی جناب کونسلر صاحب
کراچی ۸۳ زون
اسلام وعلیکم!
نہایت ادب سے آپ کی توجہ اس امر کی جانب مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ ہمارے علاقے پانی کی شدید قلت ہے۔ گرمی اپنے عروج پر ہے اور ہمارے علاقے میں پانی کا یہ حال ہے کہ کئی دن تک پانی بالکل نہیں آتا اور اگر بھولے سے آبھی جائے تو اتنی قلیل مقدار میں کہ استعمال کے لئے ناکافی ہوتا ہے۔ جسکی وجہ سے ہمیں سخت پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ گرمی روز بروز بڑھتی چلی جارہی ہے اور پانی کی قلت کا یہ حال ہے کہ کئی کئی دن بغیر نہائے گزر جاتے ہیں۔ تمام محلہ والوں کی جان عذاب میں پڑی ہوئی ہے۔
آپ کی خدمت میں گذارش ہے کہ متعلقہ حکام پر زور دیں تاکہ وہ ہمیں اس مشکل سے نجات دلائیں اور پانی کا انتظام بہتر کریں۔

شکریہ
آپکی توجہ کا طالب
ا - ب -ج


حادثات کی زیاد تی سے متعلق اخبار کے مدیر کے نام درخواست


کمرہ امتحان
کراچی
۵۱ مارچ ۰۰۰۲ئ
مدیر محترم
روزنامہ جنگ کراچی
اسلام وعلیکم!
میں آپ کا روزنامہ باقاعدگی کے ساتھ پڑھتا ہوں۔ مجھے یہ دیکھ کر انتہائی خوشی ہوئی ہے کہ آپ نے اپنے اخبارکا ایک صفحہ عوامی شکوے ، شکایات اور مسائل کی اشاعت کے لئے وقف کردیا ہے تاکہ لوگوں کے مسائل موثر انداز میں متعلقہ حکام تک پہنچ سکےں۔
لہذا میں آپ کے اخبار کی وساطت سے متعلقہ حکام کے علم مےں یہ بات لانا چاہتا ہوں کہ کراچی میں روزانہ حادثات ہوتے رہتے ہیں۔ اخبارات پڑھکر طبیعت پریشان ہوتی ہے اس کی روک تھام کے لئے کچھ نہ کچھ کرنا چاہئے۔ اگر حکام غیر قانونی تجاویزات ختم کرادیں، پارکنگ کے لئے مناسب جگہیں مقرر کریں، ہیوی ٹریفک کو صرف اور صرف رات کے وقت بازارون میں سامان لانے اور لے جانے کی اجازت ہو۔ دن میں انکا داخلہ ممنوع ہو۔ مصروف بازاروں اور سڑکوں پر کنٹرول کے لئے ٹریفک پولیس موجود رہے۔ بس وغیرہ اپنے مقررہ اسٹاب کے علاوہ کہیں نہ رکیں، ریس لگانے ، اوور ٹیک کرنے اور غلط پارکنگ کرنے والے ڈرائیوروں کو سخت اور موقع پر ہی سزا دی جائے اور عوام بھی ڈرائیوروں کو ٹیپ چلانے اور گاڑیاں بھگانے سے باز رکھیں تو کافی حد تک حادثات میں کمی ہوسکتی ہے۔
امید کرتا ہوں کہ آپ میری یہ عرضداشت حکامِ بالا تک پہنچانے کا ذریعہ بنےں گے اور متعلقہ حکام معاملے کی نزاکت کو محسوس کریں گے اور احساسِ ذمہ داری سے کام لیتے ہوئے اس مسئلے کے جلد حل کے لئے موثر اقدامات کریں گے۔

فقط
آپکی عنایتوں کا طالب
ا - ب -ج



اپنے دوست یا بھائی کے نام خط لکھئے جس میں تعلیم کی اہمیت پر روشنی ڈالئے


کمرہ امتحان
کراچی
۵۱ مارچ ۰۰۰۲ئ
میرے پیارے دوست،
اسلام وعلیکم
تمہارا خط ملا۔ پڑھ کر تعجب ہوا کہ تم تعلیم یافتہ بیروزگار نوجوانوں کو دیکھ دیکھ کر تعلیم سے اکتانے لگے ہو اور اب تمہارا دل تعلیم حاصل کرنے مےں نہیں لگ رہا ہے۔ یہ کسی قسم کی مایوسی کی باتیں کرنے لگے ہو۔ تم تو ہمیشہ شاندار مستقبل اور عزم و ہمت کی باتیں کرتے تھے۔
کل ہی میں نے تمہاری کتاب میں ڈپٹی نذیر احمد کا خط دیکھا۔ کتنی عمدہ بات انہوں نے اپنے بیٹے کو لکھی ہے کہ رزق و نوکری تو انسان کو اپنے مقدر سے ملتی ہے۔ علم اس لئی حاصل کرو کہ تمہارے اندر علمیت، قابلیت اور لیاقت پیدا ہوتا ہے کہ ہم عصروں میں انفرادیت اور ممتاز حیثیت حاصل کرسکو۔ جہاں جاو لوگ عزت تعظم کریں اور تم ہی سب کی نگاہوں کا مرکز ہو۔
انسان کو اشرف المخلوقات ہونے کا شرف علم و آگہی کی بدولت حاصل ہے۔ دین و دنیا کی تمام تر ترقیاں اور بلندیاں علم ہی کے دم سے ہیں۔ اس لئے اسلام نی سب سے زیادہ زور دلم حاصل کرنے پر دیا ہے۔ علم کے سمندر مےں جتنے غوطے لگاو گے اتنے ہی نکھر کر اوپر آوگے۔ علم حاصل کرنے کے لئے مہد سے لحد تک کوئی وقت کی قید نہیں۔ ہاں عزم و ہمت اور مسلسل جدوجہد کامیابی و کامرانی کا زینہ ہے۔
تم بہت محنتی ہو۔ کاش! تم بھی اپنے اسلاف کی طرح کوئی ایسا علمی کارنامہ انجام دو کہ تمہارے علم و فضل سے قوم، ملک اور مذہب و ملت کو فائدہ پہنچے

فقط
تمہارا دوست
ا - ب -ج

Sunday, November 10, 2013

Matric Urdu Notes Class 10thمرکزی خیال اور خلاصہ (چین میں ایک دن اردو کے طالبعلموں کے ساتھ )

Matric Urdu Notes Class 10th

مرکزی خیال اور خلاصہ


چین میں ایک دن اردو کے طالبعلموں کے ساتھ

مرکزی خیال 

اس سفر نامے میں ابنِ انشاءنے ہمسایہ دوست ملک چین میں اردو کی مقبولیت کو بیان کیا ہے۔ اور بتایا ہے کہ زبانیں کسطرح سے آپس مےں محبت اور اتفاق کو بڑھاتی ہے۔ چین میں جہاں انہوں نے کچھ عرصے میں چینی زبان کو سیکھنے کی کوشش کی وہاں ان کو یہ دیکھ کر بڑی خوشی ہوئی کہ ہمارے چینی بھائی اردو بڑے ذوق و شوق سے سیکھتے ہیں اور باقاعدہ اردو میں تعلیم کا انتظام ہے۔ اردوزبان کو سیکھنے کو ذوق و شوق بجائے خود اردو کی مقبولیت ثبوت ہے۔ غیر ملکی زبانوں سے ان کی یہ دلچسپی ہمیں بھی دوسری زبانوں کو سیکھنے کی طرف مائل کرتی ہے۔

خلاصہ

 ابن انشاءکو جب ہمسایہ مالک چین جانے کا موقع ملا تو وہ چینی زبان سے واقف نہ تھے۔ لیکن انہوں نے کوشش کرکے اس زبان کی ابتدائی باتیں سیکھ لی۔ پھر انہیں یہ اطمینان تھا کہ چےنی لوگوں کی گفتگو میں جو باتیں ان کی سمجھ میں نہیں آئینگی وہ ان کا ترجمان ان کو اردو میں سمجھاتا رہے گا۔ بہر حال چین پہنچ کر وہ ترجمان کی عدم موجودگی میں بھی وہاں کے لوگوں کی باتیں آسانی سے سمجھتے رہے۔ یہاں طنزیہ و مزاحیہ انداز میں انہوں نے لکھا ہے کہ کچھ زبان زدو عام قسم کے الفاظ مثلاً شے شے(شکریہ) ان کے بہت کام آئے۔ ان دنوں اردو کے مشہور ادیب خاطر غزنوی بھی چین میں ہی تھے اور چینی زبان سیکھ رہے تھے۔ ابنِ انشاءنے طنزیہ انداز میں لکھا ہے کہ کافی دن گزرنے کے باوجود چینی زبان سے ان کی واقفیت بھی رسمی تھی۔
ایک دن ابنِ انشاءیونیورسٹی کے شعبہ اردو میں پہنچے وہاں مادام شان یون اردو پڑھانے پر مامور تھیں۔ انہوں نے مادام شان یو ن کو اپنی کتابیں پیش کیں اور پھر انکا شعبہ اردو کے طالب علموں سے تعارف ہوا اس پر یونیورسٹی اور شعبہ اردو میںچینی دستورکے مطابق سب نے تالیاں بجا بجا کر ان کا استقبال کیا۔ اردو پڑھنے والے جن طلباءسے تعارف ہوا ان میں کچھ اردو فرفر بولتے تھے۔ اور کچھ دقت کے ساتھ۔ اس کے بعد جب ہوسٹل دیکھنے کا موقع ملا تو یہاں بڑی سادہ سی صورتحال سامنے آئی۔ ہر کمرے میں دومنزلہ چارپائی اور ایک میز تھی۔ اور کتابوں کے لئے ایک الماری رکھی تھی۔ طلبہ بہرحال بڑی لگن سے اردو سیکھنے میں مصروف نظر آئے۔ مثلاً ان کی باتوں میں تذکیروتانیث کی کوئی غلطی دکھائی نہ دی۔

وہاں اردو کا اخبار ”جنگ“ بھی آتا تھا۔ اس کے بعد ابنِ انشاءکو لائبریری دیکھنے کا موقع ملا وہاں ادب کی کتنی ہی کتابیں موجود تھیں۔ ابنِ انشاءجس وفد کے ساتھ چین گئے تھے اس کے سربراہ چین میں اردو سے یہ دلچسپی اور ان کایہ فروغ دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور انہوں نے شعبہ اردو کے طلباءکو چائے کی دعوت دی پھر جب ابن انشاءکو اردو کی صدر شعبہ کی تحریر دیکھنے کا موقع ملا تو وہ مزید متاثر ہوئے اس کہ لئے ان کا خط خاصہ صاف تھا۔
غرض طالبعلموں نے اردو میں یہ دسترس دوسال سے بھی کم عرصے میں حاصل کی تھی اور ان کو اردو سکھانے والی استاد نے اردو کسی ادارے سے نہیں بلکہ ایک چینی سے پڑھی تھی ان سب کی اردو سے وابستگی دیکھ کر ابنِ انشاءاور تمام ارکانِ وفد کے چہرے خوشی سے دمک اٹھے۔

Matric Urdu Notes Class 10th مرکزی خیال اور خلاصہ (ہاسٹل میں پڑھنا)

Matric Urdu Notes Class 10th 

مرکزی خیال اور خلاصہ 

ہاسٹل میں پڑھنا

مرکزی خیال

ہاسٹل میں پڑھنا، احمد شاہ پطرس بخاری کا وہ مضمون ہے جس میں انہوں نے مزاحیہ اور دلچسپ انداز میں طالبعلموں کے اس طبقے کی فطرت ظاہر کی ہے جو پڑھائی کو تفریح طبع کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ اور درسگاہوں کو تفریح گاہ اور وہ اس ادارے سے اس قدر مانوس بھی ہوجاتے ہیں کہ چھوڑنا نہیں چاہتے لہذا جان کے فیل ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔

خلاصہ 

احمد شاہ پطرس بخاری نے اس مضمون کی ابتداءاپنے بی- اے سال اول میں ناکامی کے ذکر سے کی ہے۔ اس سے پہلے وہ ایف-اے کے امتحان میں کامیابی حاصل کرچکے تھے مگر وہ بھی اس طرح کہ ان کو ریاضی میں کمپارٹمنٹ امتحان دینا پڑا تھا۔ چنانچہ بی-اے میں انگریزی، تاریخ اور فارسی کے مضامین پڑھنے کے ساتھ ساتھ انہیں ایف-اے کے ریاضی کی تیاری بھی جاری رکھنی پڑی جو کہ ان کے لئے بڑی دشوار ثابت ہوئی۔ اسی دشواری کے پیشِ نظرانہوں نے سب کے مشوروں کے بعد بی- اے میں ریاضی کو خےرباد کہہ دیا تھا۔ مگر ایف - اے کاپرچہ ریاضی تو پاس کرنا ہی تھا۔ نتیجہ آیا تو فارسی اور تاریخ میں فیل ہوگئے۔ فارسی میں فیل ہونے سے ان کو بڑی ندامت ہوئی کیوں کہ ان کا تعلق علم دوست گھرانے سے تھا وہ تو خدا کی مہربانی ہوئی کہ اگلے سال فارسی میں اس سے اگلے سال تاریخ مےں پھر اگلے سال انگریزی میں پاس ہوگئے۔
بی-اے سال دوئم میں بھی کچھ یہی صورت حال رہی۔ کبھی وہ ایک پرچے میں فیل ہوئے اور کبھی دوسرے پرچے میں اسی طرح انہوں نے متعدد بار امتحان دئیے۔
آخری دفعہ بھی انہیں فیل ہونے کی توقع تھی وہ سوچ رہے تھے کہ عمر بھر آزادی نہیں ملی۔ گھر سے نکلے تو ماموں کے چھوٹے سے مکان مےں رہے اور جب یہاں سے نکلیں گے تو زندگی بھر اپنے بنائے ہوئے ڈربے نما مکان میں رہنا پڑے گا۔ چنانچہ اس دفعہ ہاسٹل مین رہ کر پڑھا جائے۔ اپنے اس خیال کو عملی جامہ پہنانے کے لئے انہوں نے سفارشیں کروائیں اور گھر والوں کو بڑے مشکل سے رضامند کیا اور بے چینی کے ساتھ نتیجے میں فیل ہونے کا انتظار کرنے لگے۔ مگر سارے منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ سپنے ٹوٹ گئے۔ نتیجہ آیا 
تو وہ کامیابی حاصل کرچکے تھے

URDU 2ND YEAR (New Book Modal Paper)