Tuesday, November 12, 2013

ISLAMIAT NOTES

Aqeeda-e-Toheed عقیدہ توحید

ابتدائیہ
کہو اللہ ایک ہے۔ اللہ بے نیاز ہے نہ وہ کسی کا باپ نہ کسی کا بیٹا اور نہ کوئی اس کا ہمسرہے۔
مندرجہ بالا سورة قرآ ن مجید کی وہ مختصر سورة ہے جو مسلمانوں میں سب سے زیادہ تلاوت کی جاتی ہے۔ اس سورة کی ہر آیت میں عقیدہ توحید کی جانب نشاندہی کی گئی ہے۔ اور ہر حوالے سے خدائے ذوالجلال کو احد قرار دیا ہے۔ اس سورة کی ابتداءمیں جو مخاطبانہ اندازِ بیان اختیار کیا ہے وہ اس لئے کہ مسلمان پہلے اپنے اندر عقیدہ توحید کو پختہ کریں پھر اسلام کی باقی تعلیمات پر عمل کریں۔ اس میں ہر ذی شعور اور صاحب عقل انسان کو توحید کا درسِ عام دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ اگر ہم کلمہ طیبہ پر غور کریں تو اس سے بھی ہمیں یہ درس ملتا ہے۔
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
ترجمہ : نہیں کوئی معبود سوائے اللہ کہ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ یعنی اسلام کا باب اسلام کی تعلیمات اور تمام معاملات کا نچوڑ توحید سے شروع ہوتا ہے اور توحید ہی پر ختم ہوتا ہے۔

لغوی و شرعی معنی

توحید کے لغوی معنی ایک ماننا اور ایک جاننا ہے۔ شریعت کی اصطلاح میں توحید ورعقیدہ�¿ توحید یہ ہے کہ اللہ تعالی کو ذات و صفات میں ایک مانا جائے اور اس کے تمام احکامات پر سختی سے عمل کیا جائے۔
 
تمام مذاہب کی تلقین
 
حضرت آدم عہ سے لے کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک جتنے بھی پیغمبرانِ دین گزرے ہیں وہ سب توحید ہی کا پیغام لے کر دنیا پر نازل ہوئے۔ کوئی بھی یہودیت، عیسائیت اور اسلام لے کر نہیں آیا تھا۔ بلکہ سب کا مقصد یہ تھا کہ لوگ کسی نہ کسی خدا کا اعتراف کریں اور اپنے اندا عقیدہ توحید کو پختہ کریں۔ سب کی شریعتوں نے عبادات کے مختلف طرقے بیان کئے مگر بتوں، خداوں اور درختوں کی پوجا میں سب نے کسی نہ کسی خدا کا اعتراف ضرور کیا۔  
الہ کا مفہوم
 
قرآن مجید کی رو سے الہ کا مفہوم یہ ہے کہ کوئی ایسی ذات ہو جو تمام حلقہ زندگانی میں خودمختار ہو، مطلقِ کل ہو، رازق ہو، معبود ہے۔ کلمہ طیبہ کے لفظ میں پوشیدگی کا مفہوم بھی پایا جاتا ہے۔ اس کے معنی وہیں ہیں جو ہندو مذہب میں دیوتا، عیسائیت میں گاڈ (God)اور دیگر مذاہب میں خدا کا ہے۔ کلمہ نے بیان کیا کہ الہ ایک ایسی بابرکت ذات ہے جس کا اسمِ مبارک اللہ ہے۔ یعنی اس وسیع و عریض کائنات میں سوائے اللہ کے اور کوئی ذات ایسی نہیں جو پوجنے کے لائق ہو۔ تم اللہ کے سوا جسے پوج رہے ہو وہ تو محض بت ہیں اور تم ایک جھوٹ گھڑ رہے ہو وہ تمہیں رزق دینے کا اختیار نہیں رکھتے ہیں۔ اللہ کے یہاں سے رزق مانگو اور اسی طرح کی عبادت کرو اس کا شکر ادا کرو اور اسی کی طرف پلٹائے جاو گے۔ اللہ کے سوا کسی دوسرے کو معبود نہ بناو کہ ملامت کے مارے بے کس ہو کر پتھر ہو جاو اور ہمارے پرودگار نے فرمادیا ہے کہ کسی کی عبادت نہ کرو مگر صرف اللہ کی۔
توحید کے دلائل
 
اگر کوئی صاحب عقل اور ذی شعور انسان اپنے ارد گرد کے ماحول پر نظر ڈالے اور ذرا سا غوروفکر سے کام لے تو باآسانی عقیدہ توحید کو سمجھ سکتا ہے۔ حالات و واقعات اس خوبصورت سے توحید کا درس دیتے ہیں کہ انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے اگر اس کے باوجود بھی کوئی شخص اس پر ایمان نہ لاتا اور اللہ کے ہونے سے انکار کرتا ہے تو اس سے زیادہ بیوقوف اور محروم اور کوئی نہیں۔

(۱) وسیع و عریض نظامِ کائنات

سورة ال عمران میں ارشادِ باری تعالی ہے: بے شک آسمان اور زمین کا بنانا دن اور رات کا آنا جانا اس میں نشانیاں ہیں عقلم مند لوگوں کے لئے۔
اگر ہم اس وسیع و عریض کائنات پر غور کریں اور اس سسٹم کا بغور جائزہ لیں تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ یہ کائنات نہایت وسیع ہے۔ ہمارے سامنے تو صرف یہ زمین ہے جس کی وسعت کا ثبوت دینے کے لئے صرف اتنا کہنا ہی کافی ہوگا کہ جدید سہولتوں کے استعمال کے باوجود اس کے سفر میں کئی دن لگ جاتے ہیں۔ پھر اگر ہم سورف پر نظر ڈالیں جو زمین سے ہزاروں سال کے فاصلے پر ہے اور اسی طرح دیگر سیارے جن میں سے زمین کے برابر، کچھ چھوٹے اور کچھ اس سے بھی بڑے ہیں۔ یہ تمام دنیا و سورج اور دیگر سیارے ایک ہی گلیکسی (Galaxy) میں موجود ہیں۔ پھر اس جیسی اربوں (Galaxies) اسی ایک آسمان میں سموئی ہوئی ہیں۔ قرآن مجید کی رو سے اس کائنات میں سات آسمان ہیں اگر ہم زرا دیر کو سوچیں کہ اس وسیع و عریض نظام جس میں زرا برابر بھی نقص نہیں ہے ایک سے زائد خدا چلارہے ہوتے تو یہ سب پل بھر میں تباہ ہوجاتا۔ سب پر غالب اور سب پر حاکم تو ایک ہی قوت ہوسکتی ہے۔
کیا ان لوگوں نے نظر اٹھا کر اپنے اوپر آسمان نہیں دیکھا ہم نے اس کو کیسے سجایا اور اس کے منظر کو کس طرح سجایا اور اس میں کہیں کوئی شگاف نہیں اور اس طرح زمین پر غور کرو ہم نے اس کو فرش کی طرح پھیلا دیا اور اس پر پہاڑوں کے لنگر ڈال دیئے۔ پھر اس میں قسم قسم کی نباتا اگائی بصیرت، ہدایت اور یاددہانی کا سامان ہے یہ اور اس بندے کے لئے جو حق کی طرف رجوع ہو۔
قرآنِ پاک میں ارشادِ باری تعالی ہے:
اور زمین میں جتنے درخت ہیں اگر وہ سب قلم بن جائیں اور سمندر روشنائی جسے پھر سات سمندر روشنائی مہیا کرے پھر بھی اللہ کی باتیں ختم نہ ہونگی۔ بلاشبہ اللہ غالب اور حکمت والا ہے۔

(۲) علوم و فنون کی معراج - توحید

اور وہ آسمان و زمین کا موجد ہے اور جب وہ کسی بات کا فیصلہ کرتا ہے تو اسکے لئے صرف یہی حکم دیتا ہے کہ ہوجاو تو وہ ہوجاتی ہے۔
جدید سائنس اور علوم دورِ حاضر میں اپنی معراج کو پا چکیں ہیں۔ یہ تمام علوم و فنون آج اس نتیجہ پر پہنچ چکیں ہیں کہ اللہ تعالی کا نظامِ قدرت انسانی فطرت کے عین مطابق ہے۔ مثال کے طور پر فزکس کی رو سے کائنات کا ہر زرہ جمال چھوٹے چھوٹے (atoms) یا (Molecules) سے بنا ہے۔ ان (atoms) میں (electrons) پائے جاتے ہیں جو ایک مدارکے گرد گردش کرتے ہیں۔ یہ بات انسانی تحقیق کے بعد سامنے آئی ہے جبکہ اسلام نے قدرت کا یہ طرز’ عمل بہت پہلے واضح کردیا تھا۔ اسلام نے حج میں طوافِ کعبہ کا طریقہ متعین کیا۔ وہ تمام ان اشیاع سے مطابقت رکھتا ہے جو ایک دائرے میں گردش کررہی ہے اور (electrons) بھی (Molecules) میں یہی طریقہ اپنائے ہوئے ہیں۔ یہ تمام حقائق و واقعات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ اس کائنات کو چلانے والی ذات ایک الہ ہی ہے اور اسی کا نظام قدرت کی ہر شے پر نافذ ہے۔
قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:
نہ سورج کی مجال ہے کہ چاند کو پکڑ سکے اور رات دن سے پہلے آسکتی ہے یہ سب ایک ہی دائرے میں تیر رہے ہیں۔

(۳) پیمانہ فکر (اگر ایک سے زیادہ خدا ہوتے؟)

اگر کسی کمپنی کو ایک سے زیادہ مالکان چلائیں تو عام مشاہدے میں یہ بات آتی ہے کہ چھوٹے چھوٹے اختلافات ہر وقت موجود رہتے ہیں اور یہی چھوٹے اختلافات بڑے جھگڑوں کی شکل اختیار کرلیتے ہےں۔ غرض اس نظام کی تباہی کا سبب بنتے ہیں۔
خود ہی سوچئے کہ اگر اس زمین و آسمان کو چلانے والے ایک سے زائد خدا ہوتے تو کیا اس کرہ ارض میں انسانوں اور دیگر مخلوقات سکون و چین کے ساتھ زندگی بسر کرتے اور کیا نظام کائنات بہتر طور پر چل سکتا ہے۔ بعض مذاہب ہیں تو یہ حال ہے کہ ان کا کھانے پینے کا الگ خدا ہے، بارش کا الگ اور دوسرے معاملات کا الگ خدا۔ غرض ہر شعبہ زندگانی کا ایک الگ اور نیا خدا متعین ہے اور تمام خدا ایک دوسرے کے محتاج کی وجہ سے اپنی مرضی سے کوئی بھی کام نہیں کرسکتے غرض انسانی فکر سے یہ بات واضح ہوگئی کہ اس کائنات کو چلانے والے خداوں کی تعداد ایک سے زائد ہونا ناممکن ہے۔
سورة الانبیاءمیں ارشاد ہوتا ہے:
اگر دونوں (زمین و آسمان) کو چلانے والے اللہ تعالی کے علاوہ معبود ہوتے تو دونوں (زمین و آسمان) میں فساد برپا ہوجاتا۔
شرک
 
شرک سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالی کی ذات میں کسی دوسرے کو حصہ دار یا ساتھی ٹھہرایا جائے۔ قرآن مجید میں شرک کو بہت بڑا گناہ قرار دیا گیا ہے: بے شک شرک بہت بڑا بھاری ظلم ہے۔
ایک اور جگہ ارشاد ہوتا ہے:
اللہ یہ بات معاف نہیں کرتا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک بنایا جائے۔
قرآن مجید کی رو سے شرک کی تین اقسام ہیں:

(۱) ذات میں شرک (۲) صفات میں شرک (۳) صفات کے تقاضوں میں شرک
صفات کے تقاضوں میں شرک سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالی جن خصوصیات کا مالک ہے ان کے علاوہ کسی اور کو ان خصوصیات کا ساجھی ٹھہرایا جائے۔ اسی سے مدد طلب کی جائے اور اس کی بندگی و غلامی کی جائے۔ صفات کے تقاضوں میں
شرک علماءکرام کے نزدیک گناہِ عظیم ہے۔ ارشادِ باری تعالی ہے:
اور پکڑتے ہیں اللہ کے سوا کہ شائد ان کی مدد کریں۔ نہ کرسکیں گے ان کی مدد اور یہ ان کی فوج در فوج پکڑی جائے گی۔
سورة ھود مےں ارشادِ باری تعالی ہے:
خدا ہی کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔

عقیدہ توحید کے اثرات
توحید وہ عقیدہ ہے جس پر ایمان رکھتے ہوئے انسان کی شخصیت نکھر جاتی ہے اور اللہ تعالی کی رحمتیں نازل ہوتیں ہیں۔
عقیدہ توحید کے انسانی زندگی پر مندرجہ ذیل اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

(۱) اطمینانِ قلب و روح  
جب انسان اس بات پر یقین کرلیتا ہے کہ اس کا معبود ایک ہے، رازق ایک ہے اور وہ تمام اشیاع پر قدرت رکھتا ہے تو وہ یکسوئی کے ساتھ اسی ایک معبود کی عبادت کرتا ہی ۔ اس خالص بندگی سے اسے جو رجائیت اور اطمینانِ قلب نصیب ہوتا ہے وہ اسے زندگی کی شاہراہ پر رواں رکھتا ہے اور وہ آسانی سے اپنی زندگی کامنشاءپالیتا ہے۔
(۲) خودداری  

معبود واحد کا یقین انسانی شخصیت میں خودداری پیدا کرتا ہے۔ وہ اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ اس کا پالنے والے اللہ ہے اس لئے کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتا اور خودداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے عزت افروز زندگی بسر کرتا ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ: اپنا منہ سب کی طرف سے پھیر کر دین فطرت کی طرف کرلو۔
(۳) پاکیزگی نفس
 
عقیدہ توحید پر پختہ یقین انسان کو اپنے نفس کی حفاظت پر آمادہ کردیتا ہے۔ وہ اپنے نفس کی پاکیزگی کو بڑھانے کے لئے اللہ تعالی کے احکامات کی پیروی کرتا ہے اور قرب الہی کی بدولت اپنے نفس کی پاکیزگی کو بڑھانے کے لئے اللہ تعالی کے احکامات کی پیروی کرتا ہے اور قربِ الہی کی بدولت اپنے نفس کی پاکیزگی و تقوی کے اضافے کے لئے کوشاں رہتا ہے۔
(۴) بہادری
 
جب انسان اس بات پر یقین کرلیتا ہے کہ وہ ایک اللہ کا بندہ ہی اور وہی اللہ اس کی حفاظت کررہا ہے تو اس میں بہادری اور جانثاری کے جذبات پیدا ہوجاتے ہیں۔ یہی مردِ مومن جب میدانِ عمل مین قدم رکھتا ہی تو یہ بہادری اسے اپنے سے دس گنا طاقت کے دشمن سے لڑنے پر آمادہ کردیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں نے کم تعداد کے باوجود کفارومشرکین کی بڑی بڑی فوجوں کو شکستِ فاش دی اور غزوات میں کامیابی سے ہمکنار ہوئے۔

حرفِ آخر


اسلام نے اسی عقیدے کو بنیاد بنا کر تمام نماز و روزے کی ابتدا میں دعا سکھائی ہے:
سب تعریفےں تمام عالموں کے رب کے لئے ہیں جو نہایت رحمن و رحیم ہے۔ اے اللہ! ہم تیری عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔ دکھادے تو ہم کو سیدھا راستہ۔ ان لوگوں کا راستہ جن پر تونے انعام کیا ناکہ ان لوگوں کی راہ جن پر تونے غضب کیا۔ (آمین!)

ENGLISH ESSAY (A VISIT TO A HILL STATION)

ENGLISH ESSAY

               A VISIT TO A HILL STATION

"The best part of the beauty is that which no picture can describe".
My love of adventure is natural to me of course, the degree of love varies from person to person. My adventuresome one nature promoted me and a cousin of mine suggested to visit Murree Hills. Murree. a beautiful valley situated between the huge mountains of Himaliya range.
It was almost mid of July when we all cousins left for Murree. We enjoyed the whole journey from Lahore to Rawalpindi. We reached Rawalpindi at 10 o' clock. We rested for a while in Rawalpindi and purchased many things of daily needs.
We reached Murree at 2 p.m. the same day. The weather was gusty and dusty. The huge masses of clouds appeared in the winking of an eye. An inky darkness prevails everywhere. Cool wind was blowing Birds were diving up and down on the waves of cool breeze. And at that time, it seemed as if:
"Nature is standing in front of us in all its beauty and grace".
We put up at an old hotel "Sunny View". After having rested there for a while, we came out to have a view of Murree hills. The valley below hills looked like a great cup full of flowers and flowing streams. The beautiful flowers of eye catching colours were dancing in cool breeze and looking so beautiful, as the poet says;
"See how the flowers as at parade, under colours stand displayed."
Next day, we walked to Kashmir point and enjoyed ourselves with its scenic beauty. When it was dark, we made for our hotel. A gentle shower of rain began to fall. When it started-tipping it down, it also created a musical sound and that was the beauty and music of nature. After a while, it started raining cats and dogs and continued till late at night, but when it was dawn, the rain stopped.
After our breakfast, we went out to see Salmi Sanitorium. Salmi is a beautiful spot situated in a fine valley. There are fruit garden on slopes. On our way back, we crossed two fast moving streams. Their silvery water was clear and cool. The number of glowing colours looked as much beautiful as:
"The best and most beautiful things in the world cannot be seen or even touched.
They must be felt with heart." (Hellen Keller)
Next day. we went to Patriata, early in the morning. We enjoyed to have a ride of chair-lift. It was an interesting'experience. Running clouds, blowing breeze and bird eye view of Murree Hills. It seemed like a dream.
In our ten days visit of Murree Hills, we enjoyed hiking, and did a lot of shopping from Murree Mall. These moments are unforgettable for me. Those days were most well-spent days of my life.
Beauty of Murree Hills left a lasting imprint on screen of my mind. It will be commemorating me of the switching beauty of Murree forever, because; "A thing of beauty is a joy forever."
 

ENGLISH ESSAY

ENGLISH ESSAY

                     MY FAVOURITE POET

Allama Iqbal is our national poet. He was born at Sialkot on November 9, 1877. He belonged to a respectable Kashmiri family. One of his forefathers left Kashmir and settled in Sialkot. His father Sheikh Nur Muhammad was a very pious and religious man. Allama Iqbal inherited mysticism and deep love of his religion from his parents.

AJIama Iqbal received his early education from Mission High School, Sialkot and passed Intermediate examination from Murray College. His teacher Molvi Syed Mir Hassan was one of the most learned and pious man of his time. Iqbal had the good fortune of studying Arabic, Persian and lslamiat under the inspiring guidance of his teacher. In one of his poems, he applauded the love affection and care of his teacher bestowed upon him. Then he went to Lahore and passed his M.A examination from Government College, Lahore. He joined the teaching staff of the Govt. College Lahore and served there for some time.

In 1905, he went to Europe for higher studies in Philosophy and Law. He did his Ph.D. in Philosophy from Germany and Bar at-Law from London. He served as a professor of Arabic in London University for six months. His stay in Europe was of great importance. He was not impressed by the Western civilization^ He disliked the Western civilization. That is why he criticized it in his poetry. His hatred is quite prominent in his poems. He also predicted that the materialistic civilization of the West is to lead them only towards destruction.

When he returned home, he started law practice in the Lahore High Court. But he was more interested in poetry than law. Most of his time, he devoted to poetry philosophy and religion. He aroused the Muslims through the message of his poetry. In fact, he had great love and sympathy for the Muslims of India. He wanted to help them. He wrote many poems. He asked the Muslims of the whole world to unite.

Iqbal presided over the Allahabad Session of the All-India Muslim League in 1930. Here, he gave us the idea of Pakistan. He said that the only solution of the problems of the Indian Muslims was a separate Muslim State. He preached that slavery was greatest curse. The Muslims should break the chains of slavery. He pointed out the main causes of the degradation and humiliation of the Muslims in his poems "Shikwa" and "Jawab-e-Shikwa".

Allama Muhammad Iqbal was a great poet of Urdu and Persian. He was an inspired and creative poet. He dreamt of a separate homeland for the Muslims of the Sub-Continent. But he could not live long to see his dream materialize in the shape of Pakistan in 1947. He died on the 21st April, 1938. His death was a great loss for the Muslims. He was buried, near the gate of Shahi Masjid. Lahore. Every year Iqbal Day is celebrated to pay him homage. May his soul rest in peace.

He wrote many books such as Bangi-i-Dara, Bal-e-Jabreel, Zarb-e-Kalim, Israr-e-Khudi, Ramuz-e-Bekhudi, Javaid Nama, etc.


Monday, November 11, 2013

شاعر کی خصوصیات خواجہ میر درد

شاعر کی خصوصیات
خواجہ میر درد

ایک تعارف

تا قیامت نہیں مٹنے کا دلِ عالم سے
درد ہم اپنے عوض چھوڑے اثر جاتے ہیں

خواجہ میر درد دہلی کے ان معروف شعراءمیں سے ہیں جن کی وجہ سے دہلی کی عمارتِ سخن قائم تھی۔ میر درد کو کئی اعتبار سے امتیازی حیثیت حاصل ہے۔ وہ ایک بلند فکر‘ درویش صفت اور صاحبِ حال انسان تھے جن کی زندگی توکل کااعلیٰ نمونہ ہے۔ درد نے جب شاعری کی دنیا میں اپناکمال دکھایا تو اردو شاعری رنگِ تغزل کے ساتھ ساتھ رنگِ تصوف سے بھی مالا مال ہو گئی۔ ان کی شاعری میں ایک طرف تصوف کا گلاب مہک رہا ہے تو دوسری طرف معرفت کے موتی چمک رہے ہیں۔ کہساروںکا سا تکلم‘ آبشاروں کاسا ترنّم اور چاندنی جیسی پاکیزگی ان کے کلام کو معطر و منور کرتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان کو دنیائے سخن میں شہنشائے تصوف کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور عام معاصر اور متاخر تذکرہ نگار ان کاذکر کمالِ احترام سے کرتے ہیں۔
نواب جعفر علی خان درد کے بارے میں کہتے ہیں۔
اُن کے پاکیزہ کلام کے مطالعے کے لئے پاکیزہ نگاہ درکار ہے۔
درد کے محاسنِ کلام
خواجہ میر درد کے طرزِ کلام کی خصوصیات درج ذیل ہیں۔

تصوف کا رنگ

خواجہ میر درد کی زندگی اور شاعری دونوں تصوف کے انوار میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ اسی لئے وہ اردو کے سب سے بڑے صوفی شاعر کہلاتے ہیں۔ ان کا منفرد اندازِ بیان ان کو دیگر صوفی شعراء سے ممتاز کرتا ہے۔ وہ اپنے طرزِ فکر کو نرم و ملائم مصرعوں میں بیان کرتے ہیں جو ان کی قلبی کیفیتوں کا آئینہ دار ہیں۔ بطور امثال
 
ارض و سما کہاں تیری وسعت کو پا سکے
  میرا ہی دل ہے وہ کہ جہاں تو سما سکے
ہے غلط گر گمان میں کچھ ہے
تجھ سوا بھی جہان میں کچھ ہے
 
جگ میں آکر ادھر ادھر دیکھا
تو ہی آیا نظر جدھر دیکھا

  سادگی

درد اپنے احساسات کی ترجمانی نہایت سہل ،شستہ‘ ہلکی پھلکی اورعام فہم زبان میں کرتے ہیں۔ ان کے اشعار میں سلاست اور روانی ہے جو ان کے کلام کو نہایت پر اثر بناتا ہے اور قاری نہایت آسانی سے سمجھ جاتا ہے۔ بقول درد
آتشِ عشق جی جلاتی ہے
یہ بلا جان پر ہی آتی ہے
  دل زمانے کے ہاتھ سے سالم
کوئی ہوگا کہ رہ گیا ہوگا

ذکر وہ میرا کرتا تھا صریحاً لیکن
میں نے پوچھا تو کہا خیر یہ مذکور نہ تھا

حوصلہ مندی

درد کا دور تاریخی اعتبار سے پر آشوب دور تھا۔ حالات کی ناسازگاری اور فکر معاش کی وجہ سے کئی شعراء لکھنو اور دوسرے مقامات کا رخ کر رہے تھے۔ لیکن ان تمام حالات کے باوجود درد کی پائے استقامت میں کوئی لغزش نہ آئی اور وہ تمام عمر دہلی میں رہ کر حالات کا مقابلہ کرتے رہے۔ ان کی اس کیفیت کا رنگ ان کے کلام میں بھی نظر آتا ہے

آیا نہ اعتدال میں ہرگز مزاجِ دہر
میں گرچہ گرم و سردِ زمانہ سمو گیا  

حیران آئینہ دار ہیں ہم
کس سے دوچار ہیں ہم
 
جان پر کھیلا ہوں میں‘ مگر جگر دیکھنا
جی رہے یا نہ رہے پھر بھی ادھر دیکھنا


موسیقیت اور ترنّم

درد روکھے اور خشک مزاج صوفی نہ تھے۔ وہ فنونِ لطیفہ سے آشنا تھے خاص طور پر موسیقی سے گہرا لگاو رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام میں حسن ونغمگی کا احساس ہے۔ ان کی غزلیں موسیقی کی خاص دھنوں اور سرتال پر پوری اترتی ہیں۔ بطور مثال

     سینہ و دل حسرتوں سے چھا گیا

     بس ہجوم یاس جی گھبرا گیا
تہمتیں چند اپنے ذمے دھر چلے کس لئے آئے تھے کیا کر چلے
قتلِ عاشق کسی معشوق سے کچھ دور نہ تھا پر تیرے عہد کے آگے تو یہ دستور نہ تھا
بے ثباتی حیات
درد کی شاعری میں دنیا کی بے ثباتی کا رنگ جھلکتا ہے۔ ایک صوفی شاعر ہونے کی حیثیت سے وہ اپنے اشعار میں اس نظریہ کی ترجمانی کرتے ہیں کہ دنیوی زندگی عارضی ہے اوراصل زندگی وہ ابدی اور دائمی زندگی ہے جو بعد الموت شروع ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر
وائے نادانی کے وقت مرگ یہ ثابت ہوا
خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا

ساقی اس وقت کو غنیمت جان
پھر نہ میں ہوں‘ نہ تو‘ نہ یہ گلشن

درد کچھ معلوم بھی ہے یہ لوگ
کس طرف سے آئے تھے کیدھر چلے

امتزاجِ مجاز و حقیقت

شاعر کے کلام میں عشقِ مجازی اور عشقِ حقیقی کا رنگ کچھ اس طرح سے ہم آہنگ ہے کہ ان دونوں میں امتیاز کرنا دشوار ہو جاتا ہے۔ درد کا کمال یہ کہ ان اشعار کے مطالعے کے بعد قاری کے لئے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ وہ محبوبِ حقیقی سے ہمکلام ہیں یا محبوبِ مجازی سے۔ مثال کے طور پر
اپنے ملنے سے منع مت کر
اس میں بے اختیار ہیں ہم

جی کی جی میں رہی بات نہ ہونے پائی
حیف ہے ان سے ملاقات نہ ہونے پائی

کچھ ہے خبر کہ اٹھ اٹھ کے رات کو
عاشق تیری گلی میں کئی بار ہو گیا

سوز و گداز

اثرِ آفرینی اوردردمندی کلامِ درد کی نمایا ںخصوصیات ہیں۔ ان کی شاعری سادگی اور حقیقت نگاری کی وجہ سے دردواثر اور سوزوگداز کا مرقع ہے۔ ان کی ہر بات دل سے نکلتی ہے اور دل میں اترتی ہے۔ بقول محمد حسین آزاد۔

درد تلواروں کی آبداری نشتر میں بھر دیتے ہیں۔ 

بطور مثال درج ذیل نمونہ کلام پیش ہے 
 
زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے

خارِ مژہ پڑے ہیں مری خاک میں ملے
اے دشت اپنے کےجےو داماں کی احتیاط

وحدت الوجود
درد کا محبوب اللہ تعالیٰ ہے۔ ان کے کلام سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ وحدت الوجود کے قائل ہیں۔ ان کی نگاہ میں کائنات کا ہر ذرّہ ِِجمال نورِخداوندی کا مظہر ہے اور ہر شے میں ایک ہی ہستی جلوہ گر ہے۔ بقول درد
جوں نورِ بصر تیرا تصور
تھا پیشِ نظر جدھر گئے ہم

بیگانہ گر نظر پڑے تو آشنا کو دیکھ
بندہ گر آوے سامنے تو بھی خدا کو دیکھ

غزل کا رنگ
خواجہ میر درد کی شاعری میں ایک طرف تصوف کا گلاب مہک رہا ہے تو دوسری طرف رنگِ تغزل پورے گلشن کو مہکا رہا ہے۔ ان کے کلام میں غزل کے تمام لوازمات موجود ہیںخواہ وہ محبوب سے ناراضگی کا احساس ہو یا شامِ غم کی کیفیات۔ مثال کی طور پر
درد کوئی بلا ہے وہ شوخ مزاج
اس کو چھیڑا برا کیا تو نے

رات مجلس میں تیرے حسن کے شعلے کے حضور
شمع کے منہ پر جو دیکھا تو کہیں نور نہ تھا

معروف تنقید نگاروں کی آرائ

ایک مشہور و معروف شاعر ہو نے کی حیثیت سے میر درد کے بارے میں مختلف نقادوں نے اپنی آراء پیش کی۔ میرحسن لکھتے ہیں۔ درد آسمانِ سخن کے خورشید ہیں۔
مرزا علی لطف گلشنِ ہند میں لکھتے ہیں۔
اگرچہ دیوانِِ درد بہت مختصر ہے لیکن سراپا دردواثر رکھتا ہے۔
بقول رام بابو سکسینہ۔
درد کی غزلیں زبان کی سادگی اور صفائی میں میر کا کلام کا مزہ دیتی ہیں۔

IX ENGLISH NOTES (Responsibilities of a Good Citizen)

Responsibilities of a Good Citizen


  • Question and Answers

Q.1 Where did men live in early days? Ans. In the earlier days men lived in caves like animals. Their lives were difficult and each of them lived by himself and for himself.
Q.2 Why did they begin to live together? Ans. They began to live together in order to had a safer and better life.
Q.3 What happened when society grew larger? Ans. In the early societies their were only farmers, weavers, cobblers, masons and soldiers. As society grew larger and as men became more civilized many professions and occupation develop. Hence, today we have doctors, teachers, engineers, artist, writers, policemen and a host of other owrkers who all do something for their fellow-men.
Q.4 What should a trader do? Ans. A trader should not sell substandard goods and should work honestly and fairly.
 
Q.5 What should a milkmen do? Ans. A milkmen should not mix water in the milk.
Q.6 If someone is dishonest, what does he teach others? Ans. If someone is dishonest, he teaches others to be dishonest too.
Q.7 How does a bad citizen deserved to be treated? Ans.A bad citizen should be punished, he should be treated in the same way in which he treats others.
Q.8 What is our duty to our country? Ans. Our duty to our country is to under stand the problem faced by our country. We must cooperate with our Government in solving these problems. It is our duty to be loyal and patriotic to Pakistan and follow its laws, to pay the taxes honestly and promptly.
Q.9 How important are our neighbour to us according to the Holy Prophet (P.B.U.H)? Ans. According to Holy Prophet (P.B.U.H) our neighbours are as important as our brothers.
Q.10 What must we do to be good Muslim? Ans. We must be good, honest and dutiful citizen in order to be a good Muslim.
Q.11 What are the problems that Pakistan are facing? What has our government done to solve these problems? Ans. 
problems facing Pakistan are poverty and illiteracy.
The government of Pakistan have started many programs to solve these problem. These are program for rural development, illiteracy and adult education, health, sanitation and social welfare and population planning. Education centre, family and social welfare and population planning centres have been setup throughout the country.

IX ENGLISH NOTES

The Guddu Barrage

  • Question and Answers

Q.1 How have rivers served men? Ans. Rivers have served men in the following ways:
  • They have served as trade route before the road and railways were constructed people carried on trade by boats and ships.
  • Since rivers have water in abundance man through digging cannals to obtain water from river for irrigation.

Q.2 What is a barrage? What purpose does it serve?
Ans. A barrage is a kind of a well which blocks the flow of water. It has gates, through which the water is allowed to pass in a limited quantity.
Its aim is to control the flow of water in the flood seasons and store it in such a manner that the canal get water through out the year. In this way, farmers can be given water for their fields. Life and property canals can be protected from flood by stopping the flow of water.

Q.3 Why were most of the town in ancient times build near rivers?
Ans. Most of the towns were built near river because river played very important role in the life of man. They have served as trade routes from the earliest time, trade was earned by boats and ships along rivers.

Q.4 What are the benefits of Guddu Barrage?
Ans. The Guddu Barrage is built on the river Indus. We get benefit from the Guddu Barrage in the following ways:
1. It control the flow of water in the flood season and in this way life and property can be protected from floods.
2. It stores water in such a way that the canal can get water through out the year and the farmers can give water to their fields according to their needs.
3. The seven meter wide road over the barrage has reduced the road distance between Lahore and Quetta and between Rahimyar Khan and Kashmore.
@import "/extensions/GoogleAdSense/GoogleAdSense.css";

Q.5 Name the main canals built on the Guddu Barrage?
Ans. Guddu Barrage has a system of three main canals. Two on the right bank and one on the left.
1. Begar Sindh Feeder.
2. The Desert Part Feeder on the right bank of Guddu Barrage.
3. The Ghotki Feeder of the left Bank

Q.6 What areas of Sindh are irrigated by Guddu Barrage?
Ans. Guddu Barrage irrigated 2.7 million acres. Most of the acres ies in Sukkur and Jacababad District Sindh.

Q.7 What are the two problems posed by rivers?
Ans. River posed problems such as:
1. How to get the water from the river through out the year.
2. How to escape the fairy of floods.

1st Year Islamiat Notes (اسلامیات) حقوق العباد

   حقوق العباد

حقوق سے مراد

حقوق جمع ہے حق کی جس کا مطلب ہے لازمی اور ضروری۔ حقوق دو قسموں کے ہوتے ہیں:

(۱)حقوق اللہ
(۲) حقوق العباد 


حقوق اللہ 

اللہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن مجید کے ذریعے اپنے سرے حقوق بندوں کو بتادیئے ہیں کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور تمام وہ کام کرو جس کا اللہ اور رسول نے حکم دیا۔
حقوق العباد

عباد جمع ہے عبد کی جس سے مراد ہے انسان یا بندہ۔ اس طرح حقوق العباد کا مطلب ہے بندوں کے لئے ضروری یعنی حقوق۔ حقوق العباد میں دنیا کے ہر مذہب، ہر ذات و نسل، ہر درجے اور ہر حیثیت کے انسانوں کے حقوق آجاتے ہیں۔ اگر ہم عزیزوں کے حقوق ادا کریں تو اس کے ساتھ غیروں کے حقوق بھی ادا کریں۔ غلام اگر مالک کی خدمت کرے تو مالک بھی غلام کا پورا پورا خیال رکھے۔ والدین اگر اولاد کے لئے اپنی زندگی کی ہر آسائش ترک کردیں تو اولاد بھی ان کی خدمت اور عزت میں کمی نہ کرے یہی اسلام کی تعلیم ہے پوری انسانیت کے لئے ۔ حقوق العباد میں مختلف حیثیت اور درجات کے لوگوں کے حقوق آجاتے ہیں۔

تمام انسانوں کے لئے حقوق

جب ہم انسانی حقوق کا ذکر کرتے ہےں تو اس میں مخصوص قسم کے لوگوں کے حقوق نہیں آتے بلکہ پوری انسانیت ہماری نظر کرم اور توجہ کی منتظر ہوتی ہے۔ اسلام نے پوری انسانیت کے حقوق ادا کرنے پر اس قدر زور دیا ہے کہ کسی بھی مذہب میں کچھ نہیں کہا گیا اور یہی وجہ ہے کہ مسلمان قوم کو بہترین امت کہا گیا ہے۔
مسلمان اس لئے سب سے بہترین امت ہیں کیونکہ وہ لوگوں کو نیکی کی ہدایت دیتے ہیں اور برائی سے روکتی ہیں۔ میں اپنے حقوق کو معاف کردوں گا مگر بندوں کے حقوق کی معافی نہیں دے سکتا۔
والدین کے حقوق

قرآن پاک نے والدین کے حقوق پر سب سے زیادہ زور دیا ہے۔ ارشادِ باری تعالی ہے کہ:
ماں باپ کی خدمت گزاری اچھی طرح کرو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہہ دیجئے کہ جوکچھ اپنے مال سے خرچ کروگے اس میں والدین کا بھی حق ہے۔
حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
ماں باپ کا نافرمان جنت کی خوشبو سے محروم رہے گا۔
حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی والدین نے ساتھ عزت و احترام محبت اور خدمت کی سخت تاکید کی تھی۔ ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
تمہاری جنت تمہارے والدین ہیں اگر وہ خوش ہیں تو تم جنت میں جاو گے۔
اولاد کے حقوق

ماں باپ جس طرح اولاد کی پرورش، خدمت اور تعلیم و تربیت کرتے ہیں وہ اولاد کا حق ہے۔ اولاد کی بہترین پرورش اور تعلیم و تربیت ماں باپ کا فرض بن جاتا ہے۔ ایک حدیث اس بات کو اس طرح ثابت کرتی ہے۔
باپ جو کچھ اپنی اولاد کو دیتا ہے ان میں سب سے بہتر عطیہ اچھی تعلیم و تربیت ہے۔
عزیزوں اور قرابت داروںکے حقوق

ہر انسان کے عزیز و اقارب ضرور ہوتے ہیں اور زندگی بھر ان سے تعلق قائم رہتا ہے۔ اللہ نے ان کے بہت سے حقوق مقرر فرمادئیے ہیں:
جوکچھ اپنے مال میں سے خرچ کروگے اس میں والدین کا بھی حق ہے اور قرابت داروں کا بھی۔
حضورپاک صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی عزیزوں اور رشتہ دارون کے حقوق مقرر کردئیے اور فرمایا:
رشتہ داروں سے تعلق توڑنے والا جنت میں نہیں جائے گا۔
اس طرح یہ بات ظاہر ہوگئی کہ قرآن مجید اور احادیث نے عزیزوں اور رشتہ داروں کے بہت سے حقوق مقرر فرمادئیے ہیں۔ یعنی ان کی خوشی اور غم میں شریک ہونا، غریب رشتہ داروں کی مدد کرنا اور اسی طرح کے بہت سے ایسے کام کرنا جن سے رشتہ داروں سے تعلقات خوشگوار قائم رہیں ہمارے فرائض میں شامل ہیں۔

ہمسایوں کے حقوق

ہمسائے کئی قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو ہمارے گھر کے بالکل نزدیک ہوتے ہیں اور عزیز نہیں ہیں۔ دوسرے وہ جو عزیز بھی ہوں اور تیسرے وہ جو ہمارے گھر سے ذرا دور رہتے ہوں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے زیادہ زور ان ہمسایوں پر دیا ہے جو گھر سے بالکل نزدیک رہتے ہےں۔ ان کا ہم پر حق سب سے زیادہ ہے اور وہ ہماری توجہ کے سب سے زیادہ مستحق ہیں۔ ہمیں کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہئے جو ہمارے ہمسایوں کو تکلیف پہنچائے۔ حضورپاک صلی اللہ علیہ وسلم ہمسایوں کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے کہ:
اپنے گھر کی دیواریں اتنی اونچی نہ کرو کہ ہمسایوں کی دھوپ اور روشنی رک جائے۔
اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمسایوں کے حقوق کے بارے میں بہت زیادہ تاکید فرمائی ہے۔ یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو بار بار ہمسایوں کے حقوق اس انداز میں مقرر فرمائے کہ یہ ڈر ہوا کہ کہیں وراثت میں ان کا حق نہ مل جائے۔ لہذا ہمیں ہمسایوں سے حسنِ سلوک سے پیش آنا چاہئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے جس سے ہمسایوں کے حقوق کی مکمل وضاحت ہوجاتی ہے:
کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک وہ خود پیٹ بھر کے کھالے اور اس کا پڑوسی بھوکا رہ جائے۔

استادوں کے حقوق


حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم

مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے۔   اسلام نے تعلیم حاصل کرنے پر بہت زور دیا کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو جو پہلا پیغام ملاتھا وہ لفظ پڑھو سے ملا تھا۔ علم انسان کے لئے اس قدر اہم چیز ہے کہ ماں کی گود سے لے کر قبر تک جاری رہتا ہے اور ہرشخص یعنی مردوعورت، جوان و بوڑھے پر ایک فرض کی طرح عائد کیا گیا ہے۔
جب علم کی اس قدر اہمیت ہے تو معلیم کی اہمیت بھی کچھ کم نہیں ہوسکتی۔ مختصراً یہ کہ والدین جو ہماری پیدائش اور تعلیم و تربیت کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ اور معلم جو ہماری نشونما کے ذمہ دار ہوتے ہیں تو والدین کی طرح سے ہی معلم بھی عزت و احترام کے مستحق ہیں۔ مندرجہ ذیل اقتباس سے معلم اور طالبعلم کے درمیان رشتہ اور حیثیت کی اچھی طرح وضاحت ہوتی ہے:
معلم کی حیثیت بارش جیسی ہوتی ہے اور طالبعلم کی حیثیت زمین جیسی جو بارش کو جذب کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ جو زمین بارش کی فیض و برکات سے سرسبزو شاداب ہوجاتی ہے اس کا مطلب ہوا کہ زمین نے پانی کو اپنے اندر جذب کرلیا جو زمین بارش کے پانی کو ضائع کردیتی ہے وہ بنجر ہوجاتی ہے۔ اسی طرح طالبعلم علم کی بارش کو اپنے اندر جذب کرلیتا ہے وہ خوب سیراب ہوجاتا ہے۔ اور اس کا استاد اسکو آگے جاتا ہوا دیکھ کر حسد نہیں کرتابلکہ خوش ہوتا ہے۔ مسلمانوں میں اس بات کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پہلے زمانے میں شاگرداستاد کے نام کو اپنے نام کا حصہ بنالیتے تھے۔

غلاموں، ناداروں، مسکینوں اور مفلسوں کے حقوق

حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مظلوم طبقے کے حقوق اچھی طرح سمجھائے، مقرر کیے اور ادا کئے۔ یہ طبقہ اسلام سے قبل بڑی ذلت آمیز زندگی گزارتا تھا۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف احادیث میں ان سے کے حقوق مقرر کئے:
بیماروں کی عبادت کرنا ان کا حق ہے، یتیموں کی کفالت کرنا ان کا حق ہے۔
حرفِ آخر

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام انسانوں کی بہتری اور بقاءکے لئے اپنے اعمال، کردار اور اخلاق و اقوال سے ایسا نمونہ پیش کیا جو قیامت تک کے لئے سب کی رہبری کرتا رہے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رحمتِ عالم تھے۔ یہی وجہ تھی کوئی بھی طبقہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی توجہ اور حسن سلوک سے محروم نہ تھا۔ اپ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے پہلے خود حقوق ادا کرتے اور پھر دوسروں کو تاکید فرماتے تھے۔

URDU 2ND YEAR (New Book Modal Paper)