Saturday, November 9, 2013

2nd year Urdu Khulasa : مجسمہ

2nd year Urdu Khulasa


مجسمہ
 
تعارف
یہ خوبصورت کہانی مجسمہ غلام عباس کے قلم کی وہ تخلیق ہے جس سے ان کی فنی زندگی کا آغاز ہوا۔ غلام عباس جدید اردو افسانے کے منفرد اہلِ قلم ہیں۔ آپ حقیقت و سچائی کا کلیہ مشاہدہ کرکے تجرباتِ زندگانی کو صفحہ قرطاس پر منتقل کرتے ہیں۔ آپ کا طرزِ نگارش سادہ، سلیس اور دل کش ہوتا ہے۔
غلام عباس کے ساتھ افسانے کا ایک عہد ختم ہوگیا۔ وہ اس بزم کے آخری چراغ تھے۔ شوکت صدیقی


خلاصہ
  اس کہانی کا مرکزی کردار بادشاہ ہے جو اپنی حسین وجمیل ملکہ سے بے پناہ محبت کرتا ہے۔ ایک شوہر کی حیثیت سے وہ ملکہ کو اپنی جذباتی زندگی کی تسکین کا وسیلہ سمجھتا ہے اور گھر میں بے ساختگی کی فضا چاہتا ہے۔ ان تمام احساسات کو سمجھنے کے باوجود ملکہ خدمت و اطاعت کا پیکر بن کر رہتی ہے اور انانیت اور خودداری کے خول سے باہر نہیں آتی۔ ملکہ کا یہ مصنوعی رویہ بادشاہ کو تکلیف پہنچاتا جس کی بدولت وہ ملکہ سے، اپنی سلطنت سے اور پھر خود سے بھی دور ہوتا چلا جاتا ہے۔
عمائدین سلطنت بادشاہ کا غم بانٹنے کے لئے طرح طرح کی کوششیں کرتے ہیں۔ اس کے باوجود بادشاہ کا نفسیاتی خلاء بڑھتا چلا جاتا ہے۔ البتہ اس کے بے کیف دل کو مصوری اور سنگ تراشی میں ہی اپنے احساسات کی تسکین ملتی ہے۔ اور پھر ایک دن جب ایک بوڑھا سنگ تراش بادشاہ کی خدمت میں ایک چھوٹا مگر انتہائی خوبصورت مجسمہ پیش کرتا ہے تو بادشاہ خوشی سے نہال ہوجاتا ہے اور بوڑھے صناع کو بے بہا انعام و کرام سے نوازتا ہے۔
اس احساسات سے پر مجسمے کو بادشاہ اپنی خوابگاہ میں سجالیتا ہے۔ وہ پہروں اسے دیکھتا اور جذبات کی دل فریب دنیا میں کھوجاتا ۔ مجسمے میں بادشاہ کی یہ محویت دیکھ کر ملکہ کے مصنوعی خول میں ہلچل مچ جاتی ہے۔ آہستہ آہستہ اس کے دل میں رشک، حسد بلکہ رقابت کے جذبات پیدا ہونے لگتے ہیں۔ ان جذبات کی تسکین کے لئے ملکہ مختلف طریقے اختیار کرتی تاکہ وہ بادشاہ کی توجہ حاصل کرسکے۔ بادشاہ کو یہ مجسمہ پہلے سے کہیں زیادہ عزیز ہوجاتاہے کیونکہ اسی کی وجہ سے ملکہ کے پتھر دل میں جذبات کی دنیا آباد ہونے لگتی ہے۔
مجسمے میں بادشاہ کی دلچسپی اور ملکہ کی رقابت دن بدن بڑھتی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ ملکہ اس مجسمے کو باقائدہ نقصان پہنچانا شروع کردیتی ہے۔ پہلے اس کے منہ پر سیاہی کے دھبے لگاتی ہے اور پھر اسکے اعضاءتوڑ دیتی ہے۔ بادشاہ بظاہر بے خبر تمام لونڈی غلاموں کو سزا بھی دیتا ہے لیکن سمجھ رہا ہوتا ہے کہ ملکہ کے دل پر کیا گزرہی ہے۔
پھر ایک دن جب وہ سوکر اٹھتا ہے تو یہ دیکھ کر اس کے منہ سے چینخ نکل جاتی ہے کہ مجسمے ٹکڑے ٹکڑے ہوچکا ہے۔ لیکن یہی وہ وقت تھا جب بادشاہ کامیاب ہوگیا۔ ملکہ کا انا کا بت بھی پاش پاش ہوگیا اور ملکہ بادشاہ کے قدموں میں تمام تر محسوسات کے ساتھ موجود تھی۔
بادشاہ کی خوابگاہ میں رکھے مجسمے اور ملکہ کی انا کے مجسمے کے ٹوٹتے ہی عورت کو وہ فطری روپ ظہور میں آتا ہے جس کے تحت وہ ہزار انانیت کے باوجود اپنے شوہر کی توجہ کہیں اور برداشت نہیں کرپاتی۔
بقول شاعر
بت شکنی کا مرتبہ یوں تو بلند ہے مگر
اپنے ہی خاص لطف ہے صنعتِ آذری کے بھی








1 comment:

URDU 2ND YEAR (New Book Modal Paper)