خواجہ میر درد کی زندگی اور شاعری دونوں تصوف کے انوار میں ڈوبے ہوئے
ہیں۔ اسی لئے وہ اردو کے سب سے بڑے صوفی شاعر کہلاتے ہیں۔ ان کا منفرد
اندازِ بیان ان کو دیگر صوفی شعراء سے ممتاز کرتا ہے۔ وہ اپنے طرزِ فکر کو
نرم و ملائم مصرعوں میں بیان کرتے ہیں جو ان کی قلبی کیفیتوں کا آئینہ دار
ہیں۔ بطور امثال
ارض و سما کہاں تیری وسعت کو پا سکے
میرا ہی دل ہے وہ کہ جہاں تو سما سکے
ہے غلط گر گمان میں کچھ ہے
تجھ سوا بھی جہان میں کچھ ہے
جگ میں آکر ادھر ادھر دیکھا
تو ہی آیا نظر جدھر دیکھا
سادگی
درد اپنے احساسات کی ترجمانی نہایت سہل ،شستہ‘ ہلکی پھلکی اورعام فہم
زبان میں کرتے ہیں۔ ان کے اشعار میں سلاست اور روانی ہے جو ان کے کلام کو
نہایت پر اثر بناتا ہے اور قاری نہایت آسانی سے سمجھ جاتا ہے۔ بقول درد
آتشِ عشق جی جلاتی ہے
یہ بلا جان پر ہی آتی ہے
دل زمانے کے ہاتھ سے سالم
کوئی ہوگا کہ رہ گیا ہوگا
ذکر وہ میرا کرتا تھا صریحاً لیکن
میں نے پوچھا تو کہا خیر یہ مذکور نہ تھا
حوصلہ مندی
درد کا دور تاریخی اعتبار سے پر آشوب دور تھا۔ حالات کی ناسازگاری اور
فکر معاش کی وجہ سے کئی شعراء لکھنو اور دوسرے مقامات کا رخ کر رہے تھے۔
لیکن ان تمام حالات کے باوجود درد کی پائے استقامت میں کوئی لغزش نہ آئی
اور وہ تمام عمر دہلی میں رہ کر حالات کا مقابلہ کرتے رہے۔ ان کی اس کیفیت
کا رنگ ان کے کلام میں بھی نظر آتا ہے
آیا نہ اعتدال میں ہرگز مزاجِ دہر
میں گرچہ گرم و سردِ زمانہ سمو گیا
حیران آئینہ دار ہیں ہم
کس سے دوچار ہیں ہم
جان پر کھیلا ہوں میں‘ مگر جگر دیکھنا
جی رہے یا نہ رہے پھر بھی ادھر دیکھنا
موسیقیت اور ترنّم
درد روکھے اور خشک مزاج صوفی نہ تھے۔ وہ فنونِ لطیفہ سے آشنا تھے خاص طور
پر موسیقی سے گہرا لگاو رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام میں حسن
ونغمگی کا احساس ہے۔ ان کی غزلیں موسیقی کی خاص دھنوں اور سرتال پر پوری
اترتی ہیں۔ بطور مثال
سینہ و دل حسرتوں سے چھا گیا
بس ہجوم یاس جی گھبرا گیا
تہمتیں چند اپنے ذمے دھر چلے
کس لئے آئے تھے کیا کر چلے
قتلِ عاشق کسی معشوق سے کچھ دور نہ تھا
پر تیرے عہد کے آگے تو یہ دستور نہ تھا
بے ثباتی حیات
درد کی شاعری میں دنیا کی بے ثباتی کا رنگ جھلکتا ہے۔ ایک صوفی شاعر ہونے
کی حیثیت سے وہ اپنے اشعار میں اس نظریہ کی ترجمانی کرتے ہیں کہ دنیوی
زندگی عارضی ہے اوراصل زندگی وہ ابدی اور دائمی زندگی ہے جو بعد الموت
شروع ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر
وائے نادانی کے وقت مرگ یہ ثابت ہوا
خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا
ساقی اس وقت کو غنیمت جان
پھر نہ میں ہوں‘ نہ تو‘ نہ یہ گلشن
درد کچھ معلوم بھی ہے یہ لوگ
کس طرف سے آئے تھے کیدھر چلے
امتزاجِ مجاز و حقیقت
شاعر کے کلام میں عشقِ مجازی اور عشقِ حقیقی کا رنگ کچھ اس طرح سے ہم
آہنگ ہے کہ ان دونوں میں امتیاز کرنا دشوار ہو جاتا ہے۔ درد کا کمال یہ کہ
ان اشعار کے مطالعے کے بعد قاری کے لئے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ
وہ محبوبِ حقیقی سے ہمکلام ہیں یا محبوبِ مجازی سے۔ مثال کے طور پر
اپنے ملنے سے منع مت کر
اس میں بے اختیار ہیں ہم
جی کی جی میں رہی بات نہ ہونے پائی
حیف ہے ان سے ملاقات نہ ہونے پائی
کچھ ہے خبر کہ اٹھ اٹھ کے رات کو
عاشق تیری گلی میں کئی بار ہو گیا
سوز و گداز
اثرِ آفرینی اوردردمندی کلامِ درد کی نمایا ںخصوصیات ہیں۔ ان کی شاعری
سادگی اور حقیقت نگاری کی وجہ سے دردواثر اور سوزوگداز کا مرقع ہے۔ ان کی
ہر بات دل سے نکلتی ہے اور دل میں اترتی ہے۔ بقول محمد حسین آزاد۔
درد تلواروں کی آبداری نشتر میں بھر دیتے ہیں۔
بطور مثال درج ذیل نمونہ کلام پیش ہے
زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے
خارِ مژہ پڑے ہیں مری خاک میں ملے
اے دشت اپنے کےجےو داماں کی احتیاط
وحدت الوجود
درد کا محبوب اللہ تعالیٰ ہے۔ ان کے کلام سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ وحدت
الوجود کے قائل ہیں۔ ان کی نگاہ میں کائنات کا ہر ذرّہ ِِجمال نورِخداوندی
کا مظہر ہے اور ہر شے میں ایک ہی ہستی جلوہ گر ہے۔ بقول درد
جوں نورِ بصر تیرا تصور
تھا پیشِ نظر جدھر گئے ہم
بیگانہ گر نظر پڑے تو آشنا کو دیکھ
بندہ گر آوے سامنے تو بھی خدا کو دیکھ
غزل
کا رنگ
خواجہ میر درد کی شاعری میں ایک طرف تصوف کا گلاب مہک رہا ہے تو دوسری
طرف رنگِ تغزل پورے گلشن کو مہکا رہا ہے۔ ان کے کلام میں غزل کے تمام
لوازمات موجود ہیںخواہ وہ محبوب سے ناراضگی کا احساس ہو یا شامِ غم کی
کیفیات۔ مثال کی طور پر
درد کوئی بلا ہے وہ شوخ مزاج
اس کو چھیڑا برا کیا تو نے
رات مجلس میں تیرے حسن کے شعلے کے حضور
شمع کے منہ پر جو دیکھا تو کہیں نور نہ تھا
معروف تنقید نگاروں کی آرائ
ایک مشہور و معروف شاعر ہو نے کی حیثیت سے میر درد کے بارے میں مختلف نقادوں نے اپنی آراء پیش کی۔ میرحسن لکھتے ہیں۔
درد آسمانِ سخن کے خورشید ہیں۔
مرزا علی لطف گلشنِ ہند میں لکھتے ہیں۔
اگرچہ دیوانِِ درد بہت مختصر ہے لیکن سراپا دردواثر رکھتا ہے۔
بقول رام بابو سکسینہ۔
درد کی غزلیں زبان کی سادگی اور صفائی میں میر کا کلام کا مزہ دیتی ہیں۔