Thursday, November 14, 2013

سوالات اور جوابات گزرا ہوا زمانہ

Matric Urdu Notes

سوالات اور جوابات


گزرا ہوا زمانہ

سوال۱ بوڑھا اپنے ماضی پر کیوں افسوس کررہا تھا؟
جواب: بوڑھا اپنے ماضی پر اس لئے افسوس کررہا تھا کہ اس نے پورے ماضی میں نیکی کا کوئی کام نہیں کیا تھا۔ ادھیڑ عمر میں جو کوئی نیکیاں، روزہ و نماز کے طور سے بٹوری تھیں ان میں تعلق صرف اس کی اپنی ذات اور مفاد سے تھا۔ اور نہ ہی اس نے خدمت خلق کے لئے کچھ کیا تھا۔ جبکہ سرسید کے نقط�¿ہ نظر سے دوسروں کے کام آنا ہی سب سے بڑی نیکی ہے۔

سوال۲ آنکھ کھلنے پر لڑکے نے کیا فیصلہ کیا؟
جواب: آنکھ کھلنے پر لڑکے نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنی زندگی کو نیکی اور دوسروںکی بھلائی کے کاموں میں صرف کرے گا اور رفاہِ عامہ کے کاموں کو اپنی زندگی کا مقصد بنالے گا۔ اس طرح وہ ’نیکی کی دلہن‘ حاصل کرسکتا ہے۔

سوال۳ مصنف نے اس مضمون میں اپنی قوم کے نوجوانوں کو کیا نصیحت کی ہے؟
جواب: مصنف نے اس مضمون میں نوجوانوں کو بڑی حقیقت افروز نصیحتوں سے روشناس کروایا ہے۔ مصنف کہتے ہیں کہ وقت کا چرنا چلتا چلا جاتا ہے اور زندگی کی ڈور اس پر لپٹتی چلی جاتی ہے اور بالاخر اس کا آخری سرا بھی کھینچ لیا جاتا ہے اور یہی وہ وقت ہوتا ہے جبکہ روح اپنے قالب سے جدا ہوجاتی ہے۔ اس سے پہلے ایک وقت ایسا آتا ہے جب انسان اپنی گزری ہوئی زندگی پر افسوس کرتا ہے اور سوچتا ہے کہ میں نے دنیا میں نیکیوں کے انبار میں سے کوئی بھی نیکی حاصل نہ کی اور آخرت کے لئے میرے پاس کوئی پونجھی نہیں ہے۔ مصنف اس لمحہ فکریہ کی طرف اشارہ کرکے کہتے ہیں کہ تم ایسا وقت آنے سے پہلے ہی سنبھل جا�¶ اور انسانی بھلائی کو اپنا اولین مقصد بنالو اور آخر میں مصنف دعاگو ہیں کہ خدا کرے کوئی ایسا شخص، ایسا جوان اٹھے جو مسلمانوں کے لئے خضرِ راہ کا کام سرانجام دے سکے۔

URDU APPLICATIONS AND LETTERS

خط اور درخواستیں

ٹریفک کا شعر، دھواں اور فضائی آلودگی سے متعلق اخبار کے مدیر کے نام درخواست


کمرہ امتحان
کراچی
۵۱ مارچ ۰۰۰۲ئ
مدیر محترم
روزنامہ جنگ کراچی
اسلام وعلیکم!
میں آپ کا روزنامہ باقاعدگی کے ساتھ پڑھتا ہوں۔ مجھے یہ دیکھ کر انتہائی خوشی ہوئی ہے کہ آپ نے اپنے اخبارکا ایک صفحہ عوامی شکوے ، شکایات اور مسائل کی اشاعت کے لئے وقف کردیا ہے تاکہ لوگوں کے مسائل موثر انداز میں متعلقہ حکام تک پہنچ سکیں۔
لہذا میں آپ کے اخبار کی وساطت سے متعلقہ حکام کے علم میں یہ بات لانا چاہتا ہوں کہکراچی کی روز بروز آبادی بڑھتی ہی چلی جارہی ہے۔ اس ہی لحاظ سے مسلسل ٹریفک میں اضافہ ہورہا ہے۔ گنجان آباد اور بازاروں میں سڑکوں کی تعمیر کے وقت بڑھتی ہوئی آبادی کا خیال نہیں رکھا گیا۔ مزید یہ کہ ناجائز تجاویزات کی وجہ سے سڑکیں اور گلیاں تنگ ہوگئی ہےں۔ اس لئے ہروقت ٹریفک جام رہتا ہے۔ ڈرائیور حضرات ایک دوسرے سے آگے نکلنے، سواریاں زیادہ سے زیادہ اٹھانے کے لئے ہارن پر ہارن بجاتے ہیں اور گاڑےوں سے دھواں چھوڑتے رہتے ہےں۔ ان سے اتنا دھواں خارج ہوتا ہے کہ دم گھٹنے لگتا ہے۔ شوروغل کی وجہ سے انسانی سماعت بھی متاثر ہوتی ہے۔ لاقانونیت کا یہ عالم ہے کہ اسکول، مدرسہ، اسپتال اور مسجد کچھ نہیں دیکھتے اور ہارن کے شور کے ساتھ ٹیپ ریکارڈر کا شور بھی شامل کردیتے ہیں۔ اگر ٹریفک کا شور اور دھواں اسی طرح بڑھتا رہا تو لوگوں کی سماعت، انکے دل اور پھیپھڑے متاثر ہونگے اور کئی طرح کی نئی نئی بیماریاں جنم لیں گی اس لئے حکومت کو چاہئے کہ وہ ابھی سے اس مسئلہ کا حل تلاش کرے۔
امید کرتا ہوں کہ آپ میری یہ عرضداشت حکامِ بالا تک پہنچانے کا ذریعہ بنےں گے اور متعلقہ حکام معاملے کی نزاکت کو محسوس کریں گے اور احساسِ ذمہ داری سے کام لیتے ہوئے اس مسئلے کے جلد حل کے لئے موثر اقدامات کریں گے۔

فقط
آپکی عنایتوں کا طالب
ا - ب -ج

بجلی کے قلت سے متعلق اخبار کے مدیر کے نام ایک مراسلہ


کمرہ امتحان
کراچی
۵۱ مارچ ۰۰۰۲ئ
مدیر محترم
روزنامہ جنگ کراچی
اسلام وعلیکم!
جناب میں آپ کے اخبار کی وساطت سے ایک اہم مسئلہ کی طرف محکمہ بجلی (k.e.s.c.) کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں بڑی مہربانی ہوگی۔ آپ میری یہ تحریر مراسلات کے کالم مےں اولین فرصت میں شائع فرمائیں۔
ہمارے علاقے میںبجلی کی آنکھ مچولی روزانہ کا معمول بن چکی ہے۔ کبھی کبھی تو بجلی گھنٹوں تک نہیں آتی ستم بالائے ستم یہ کہ اکثر بجلی عین رات کو اس وقت چلی جاتی ہے جب ہم امتحان کی تیاریوں میں مصروف ہوئے ہیں۔ ہمارا موڈ خراب جوجاتا ہے۔ حوصلے اور امنگ پر اوس پڑجاتی ہے اور پھر وہ پھر وہ پہلی سی گرمجوشی نہیں رہی۔ اس سے ہمارا وقت ضائع ہوتا ہے اور امتحان میں ہماری کارکردگی متاثر ہوسکتی ہے۔
امید کرتا ہوں کہ متعلقہ حکام معاملے کی نزاکت کو محسوس کریں گے اور احساسِ ذمہ داری سے کام لیتے ہوئے بجلی کے انتظام کو جلد ازجلد درست کریں گے۔

فقط
آپکی عنایتوں کا طالب
ا - ب -ج




امتحان کی تیاری کے لئے چھوٹے بھائی کو خط


کمرہ امتحان
کراچی
۵۱ مارچ ۰۰۰۲ئ
پیارے بھائی،
خوش رہو
تین دن قبل تمہارا خط پاکر مجھے بہت خوشی ہوئی۔ تم نے بتایا کہ ڈیڑھ مہینہ بعد تمہارے امتحان ہورہے ہیں اور یہ سن کرمجھے بہت خوشی ہوئی کہ تم امتحان کی تیاریوں میں مصروف ہو۔
میں تمہیںاپنے تجربات و مشاہدات کی روشنی میں چند ہدایات دے رہا ہوں اور ان پر عمل کرکے انشاءاللہ تم امتحانات میں نمایاں کامیابی حاصل کرسکتے ہو۔ مجھے امید ہے کہ تم میرے مشوروں پر عمل کرنے کی پوری کوشش کروگے۔
سب سے پہلے تو تم آج ہی اپنا روزمرہ کا ایک ٹائم ٹیبل بنالو اور اس میں نصاب کے تمام مضامین کے لئے وقت مقرر کردو کسی ایک مضمون کو بھی اپنی توجہ سے محروم نہ رکھو۔ یہ تمہارے لئے باعثِ نقصان ہوگا۔ اپنا مقررہ اوقات پر عملدرآمد کے لئے تمہیں صبح سویرے اٹھنا ہوگا فجر کی نماز کے بعد اور اسکول جانے کی تیاری تک کچھ نہ کچھ ضرور یاد کرلو۔ کوئی بھی عنوان یاد کرو اسے لکھ کر ضرور دیکھناچاہئے۔ نصاب کی کتابوں میں جو بھی مشکلات پیش آئیں ان کے لئے فوراً اساتذہ کرام سے تعاون حاصل کرنا چاہئے۔ شام کے وقت کھیل کود میں بھی ہصہ لینا چاہئے۔ اہم کاموں کے علاوہ دیگر کاموں میں وقت ضائع نہ کرو۔ زیادہ سے زیادہ وقت پڑھائی کرنے کی کوشش کرو۔ اور رات کو جلد سوجا�¶ تاکہ صبح کو جلدی اٹھ سکو۔
میں اور تمام گھر والے تمہاری کامیابی کی دعا کریں گے اور ہم انتظار کررہے ہیں کہ کب تم امتحان سے فارغ ہوکر گھر ٓآو گے۔

فقط
تمہارا بڑا بھائی
ا - ب -ج



پانی کی قلت سے متعلق کونسلر کے نام درخواست

کمرہ امتحان
کراچی
۵۱ مارچ ۰۰۰۲ئ
بلگرامی جناب کونسلر صاحب
کراچی ۸۳ زون
اسلام وعلیکم!
نہایت ادب سے آپ کی توجہ اس امر کی جانب مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ ہمارے علاقے پانی کی شدید قلت ہے۔ گرمی اپنے عروج پر ہے اور ہمارے علاقے میں پانی کا یہ حال ہے کہ کئی دن تک پانی بالکل نہیں آتا اور اگر بھولے سے آبھی جائے تو اتنی قلیل مقدار میں کہ استعمال کے لئے ناکافی ہوتا ہے۔ جسکی وجہ سے ہمیں سخت پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ گرمی روز بروز بڑھتی چلی جارہی ہے اور پانی کی قلت کا یہ حال ہے کہ کئی کئی دن بغیر نہائے گزر جاتے ہیں۔ تمام محلہ والوں کی جان عذاب میں پڑی ہوئی ہے۔
آپ کی خدمت میں گذارش ہے کہ متعلقہ حکام پر زور دیں تاکہ وہ ہمیں اس مشکل سے نجات دلائیں اور پانی کا انتظام بہتر کریں۔

شکریہ
آپکی توجہ کا طالب
ا - ب -ج


حادثات کی زیاد تی سے متعلق اخبار کے مدیر کے نام درخواست


کمرہ امتحان
کراچی
۵۱ مارچ ۰۰۰۲ئ
مدیر محترم
روزنامہ جنگ کراچی
اسلام وعلیکم!
میں آپ کا روزنامہ باقاعدگی کے ساتھ پڑھتا ہوں۔ مجھے یہ دیکھ کر انتہائی خوشی ہوئی ہے کہ آپ نے اپنے اخبارکا ایک صفحہ عوامی شکوے ، شکایات اور مسائل کی اشاعت کے لئے وقف کردیا ہے تاکہ لوگوں کے مسائل موثر انداز میں متعلقہ حکام تک پہنچ سکےں۔
لہذا میں آپ کے اخبار کی وساطت سے متعلقہ حکام کے علم مےں یہ بات لانا چاہتا ہوں کہ کراچی میں روزانہ حادثات ہوتے رہتے ہیں۔ اخبارات پڑھکر طبیعت پریشان ہوتی ہے اس کی روک تھام کے لئے کچھ نہ کچھ کرنا چاہئے۔ اگر حکام غیر قانونی تجاویزات ختم کرادیں، پارکنگ کے لئے مناسب جگہیں مقرر کریں، ہیوی ٹریفک کو صرف اور صرف رات کے وقت بازارون میں سامان لانے اور لے جانے کی اجازت ہو۔ دن میں انکا داخلہ ممنوع ہو۔ مصروف بازاروں اور سڑکوں پر کنٹرول کے لئے ٹریفک پولیس موجود رہے۔ بس وغیرہ اپنے مقررہ اسٹاب کے علاوہ کہیں نہ رکیں، ریس لگانے ، اوور ٹیک کرنے اور غلط پارکنگ کرنے والے ڈرائیوروں کو سخت اور موقع پر ہی سزا دی جائے اور عوام بھی ڈرائیوروں کو ٹیپ چلانے اور گاڑیاں بھگانے سے باز رکھیں تو کافی حد تک حادثات میں کمی ہوسکتی ہے۔
امید کرتا ہوں کہ آپ میری یہ عرضداشت حکامِ بالا تک پہنچانے کا ذریعہ بنےں گے اور متعلقہ حکام معاملے کی نزاکت کو محسوس کریں گے اور احساسِ ذمہ داری سے کام لیتے ہوئے اس مسئلے کے جلد حل کے لئے موثر اقدامات کریں گے۔

فقط
آپکی عنایتوں کا طالب
ا - ب -ج



اپنے دوست یا بھائی کے نام خط لکھئے جس میں تعلیم کی اہمیت پر روشنی ڈالئے


کمرہ امتحان
کراچی
۵۱ مارچ ۰۰۰۲ئ
میرے پیارے دوست،
اسلام وعلیکم
تمہارا خط ملا۔ پڑھ کر تعجب ہوا کہ تم تعلیم یافتہ بیروزگار نوجوانوں کو دیکھ دیکھ کر تعلیم سے اکتانے لگے ہو اور اب تمہارا دل تعلیم حاصل کرنے مےں نہیں لگ رہا ہے۔ یہ کسی قسم کی مایوسی کی باتیں کرنے لگے ہو۔ تم تو ہمیشہ شاندار مستقبل اور عزم و ہمت کی باتیں کرتے تھے۔
کل ہی میں نے تمہاری کتاب میں ڈپٹی نذیر احمد کا خط دیکھا۔ کتنی عمدہ بات انہوں نے اپنے بیٹے کو لکھی ہے کہ رزق و نوکری تو انسان کو اپنے مقدر سے ملتی ہے۔ علم اس لئی حاصل کرو کہ تمہارے اندر علمیت، قابلیت اور لیاقت پیدا ہوتا ہے کہ ہم عصروں میں انفرادیت اور ممتاز حیثیت حاصل کرسکو۔ جہاں جاو لوگ عزت تعظم کریں اور تم ہی سب کی نگاہوں کا مرکز ہو۔
انسان کو اشرف المخلوقات ہونے کا شرف علم و آگہی کی بدولت حاصل ہے۔ دین و دنیا کی تمام تر ترقیاں اور بلندیاں علم ہی کے دم سے ہیں۔ اس لئے اسلام نی سب سے زیادہ زور دلم حاصل کرنے پر دیا ہے۔ علم کے سمندر مےں جتنے غوطے لگاو گے اتنے ہی نکھر کر اوپر آوگے۔ علم حاصل کرنے کے لئے مہد سے لحد تک کوئی وقت کی قید نہیں۔ ہاں عزم و ہمت اور مسلسل جدوجہد کامیابی و کامرانی کا زینہ ہے۔
تم بہت محنتی ہو۔ کاش! تم بھی اپنے اسلاف کی طرح کوئی ایسا علمی کارنامہ انجام دو کہ تمہارے علم و فضل سے قوم، ملک اور مذہب و ملت کو فائدہ پہنچے

فقط
تمہارا دوست
ا - ب -ج

Tuesday, November 12, 2013

English Essay

TERRORISM

 OR 
TERRORISM IN PAKISTAN


Terrorism means to use violence to affright people for political resoluteness. It is also misused to organisation or provide to minify the spirit of others. In prescribe to occurrence one's sentiment. This one is the most serve-problem of the present age that people, all over the land as advisable as the undivided Gear Class are protection this devilishness. The essential causes of terrorism are exclusive to egest the political spot of the glob in sure. Terrorism becomes or may embellish end personalty of meaning and too such anxiousness.

The causes of terrorism ever are the Iniquity, malevolence and venom and its very great aim, cerebration or intention is win, illegality, demolition and emit going to acquitted lives and properties. This wicked devastation forces are ever in activeness and they stay willing to create governmental misadministration in the region. Coercion is the lowest taxon of barbarism. A wild production is e'er supposed as coercion for it generates. These are multitudinous terrorists groups in mechanism in the experience who are always work in their black terimental actions.

Pakistan semipolitical environs has been real overmuch psychoneurotic not a lone polity could be competent to base itself for the nominal point. During this structure of reading the value of depravity enhanced really some. The graph of criminal activities upraised due to the answerableness forces. The regulation of political knowing has been raining speedily. Coercion generates strains and anxiousness to the decent and downright someone of the earth. It is an afford contest to our governing, the law enforcing agencies and word agencies to conflict against this devilish instrument.

Who is accountable for this vulgarity? The serve is that who proposes to transfer the serene part into contemptible and these are the terrorist who activity with the lives of exonerated imperfect brings for covetousness of money around which they do not bed that this money is transitory action which they do not cognise that everything in this humanity leave rest here when he gift go into the representative of decease.

At this leg it has metamorphose most basic to contact out terrorism structure the scope of the glob and to everyone extant this Bag Grouping and Pakistan in special, should be provided their rights on the bases of realistic meet.
 
 

ISLAMIAT NOTES

Aqeeda-e-Toheed عقیدہ توحید

ابتدائیہ
کہو اللہ ایک ہے۔ اللہ بے نیاز ہے نہ وہ کسی کا باپ نہ کسی کا بیٹا اور نہ کوئی اس کا ہمسرہے۔
مندرجہ بالا سورة قرآ ن مجید کی وہ مختصر سورة ہے جو مسلمانوں میں سب سے زیادہ تلاوت کی جاتی ہے۔ اس سورة کی ہر آیت میں عقیدہ توحید کی جانب نشاندہی کی گئی ہے۔ اور ہر حوالے سے خدائے ذوالجلال کو احد قرار دیا ہے۔ اس سورة کی ابتداءمیں جو مخاطبانہ اندازِ بیان اختیار کیا ہے وہ اس لئے کہ مسلمان پہلے اپنے اندر عقیدہ توحید کو پختہ کریں پھر اسلام کی باقی تعلیمات پر عمل کریں۔ اس میں ہر ذی شعور اور صاحب عقل انسان کو توحید کا درسِ عام دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ اگر ہم کلمہ طیبہ پر غور کریں تو اس سے بھی ہمیں یہ درس ملتا ہے۔
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
ترجمہ : نہیں کوئی معبود سوائے اللہ کہ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ یعنی اسلام کا باب اسلام کی تعلیمات اور تمام معاملات کا نچوڑ توحید سے شروع ہوتا ہے اور توحید ہی پر ختم ہوتا ہے۔

لغوی و شرعی معنی

توحید کے لغوی معنی ایک ماننا اور ایک جاننا ہے۔ شریعت کی اصطلاح میں توحید ورعقیدہ�¿ توحید یہ ہے کہ اللہ تعالی کو ذات و صفات میں ایک مانا جائے اور اس کے تمام احکامات پر سختی سے عمل کیا جائے۔
 
تمام مذاہب کی تلقین
 
حضرت آدم عہ سے لے کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک جتنے بھی پیغمبرانِ دین گزرے ہیں وہ سب توحید ہی کا پیغام لے کر دنیا پر نازل ہوئے۔ کوئی بھی یہودیت، عیسائیت اور اسلام لے کر نہیں آیا تھا۔ بلکہ سب کا مقصد یہ تھا کہ لوگ کسی نہ کسی خدا کا اعتراف کریں اور اپنے اندا عقیدہ توحید کو پختہ کریں۔ سب کی شریعتوں نے عبادات کے مختلف طرقے بیان کئے مگر بتوں، خداوں اور درختوں کی پوجا میں سب نے کسی نہ کسی خدا کا اعتراف ضرور کیا۔  
الہ کا مفہوم
 
قرآن مجید کی رو سے الہ کا مفہوم یہ ہے کہ کوئی ایسی ذات ہو جو تمام حلقہ زندگانی میں خودمختار ہو، مطلقِ کل ہو، رازق ہو، معبود ہے۔ کلمہ طیبہ کے لفظ میں پوشیدگی کا مفہوم بھی پایا جاتا ہے۔ اس کے معنی وہیں ہیں جو ہندو مذہب میں دیوتا، عیسائیت میں گاڈ (God)اور دیگر مذاہب میں خدا کا ہے۔ کلمہ نے بیان کیا کہ الہ ایک ایسی بابرکت ذات ہے جس کا اسمِ مبارک اللہ ہے۔ یعنی اس وسیع و عریض کائنات میں سوائے اللہ کے اور کوئی ذات ایسی نہیں جو پوجنے کے لائق ہو۔ تم اللہ کے سوا جسے پوج رہے ہو وہ تو محض بت ہیں اور تم ایک جھوٹ گھڑ رہے ہو وہ تمہیں رزق دینے کا اختیار نہیں رکھتے ہیں۔ اللہ کے یہاں سے رزق مانگو اور اسی طرح کی عبادت کرو اس کا شکر ادا کرو اور اسی کی طرف پلٹائے جاو گے۔ اللہ کے سوا کسی دوسرے کو معبود نہ بناو کہ ملامت کے مارے بے کس ہو کر پتھر ہو جاو اور ہمارے پرودگار نے فرمادیا ہے کہ کسی کی عبادت نہ کرو مگر صرف اللہ کی۔
توحید کے دلائل
 
اگر کوئی صاحب عقل اور ذی شعور انسان اپنے ارد گرد کے ماحول پر نظر ڈالے اور ذرا سا غوروفکر سے کام لے تو باآسانی عقیدہ توحید کو سمجھ سکتا ہے۔ حالات و واقعات اس خوبصورت سے توحید کا درس دیتے ہیں کہ انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے اگر اس کے باوجود بھی کوئی شخص اس پر ایمان نہ لاتا اور اللہ کے ہونے سے انکار کرتا ہے تو اس سے زیادہ بیوقوف اور محروم اور کوئی نہیں۔

(۱) وسیع و عریض نظامِ کائنات

سورة ال عمران میں ارشادِ باری تعالی ہے: بے شک آسمان اور زمین کا بنانا دن اور رات کا آنا جانا اس میں نشانیاں ہیں عقلم مند لوگوں کے لئے۔
اگر ہم اس وسیع و عریض کائنات پر غور کریں اور اس سسٹم کا بغور جائزہ لیں تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ یہ کائنات نہایت وسیع ہے۔ ہمارے سامنے تو صرف یہ زمین ہے جس کی وسعت کا ثبوت دینے کے لئے صرف اتنا کہنا ہی کافی ہوگا کہ جدید سہولتوں کے استعمال کے باوجود اس کے سفر میں کئی دن لگ جاتے ہیں۔ پھر اگر ہم سورف پر نظر ڈالیں جو زمین سے ہزاروں سال کے فاصلے پر ہے اور اسی طرح دیگر سیارے جن میں سے زمین کے برابر، کچھ چھوٹے اور کچھ اس سے بھی بڑے ہیں۔ یہ تمام دنیا و سورج اور دیگر سیارے ایک ہی گلیکسی (Galaxy) میں موجود ہیں۔ پھر اس جیسی اربوں (Galaxies) اسی ایک آسمان میں سموئی ہوئی ہیں۔ قرآن مجید کی رو سے اس کائنات میں سات آسمان ہیں اگر ہم زرا دیر کو سوچیں کہ اس وسیع و عریض نظام جس میں زرا برابر بھی نقص نہیں ہے ایک سے زائد خدا چلارہے ہوتے تو یہ سب پل بھر میں تباہ ہوجاتا۔ سب پر غالب اور سب پر حاکم تو ایک ہی قوت ہوسکتی ہے۔
کیا ان لوگوں نے نظر اٹھا کر اپنے اوپر آسمان نہیں دیکھا ہم نے اس کو کیسے سجایا اور اس کے منظر کو کس طرح سجایا اور اس میں کہیں کوئی شگاف نہیں اور اس طرح زمین پر غور کرو ہم نے اس کو فرش کی طرح پھیلا دیا اور اس پر پہاڑوں کے لنگر ڈال دیئے۔ پھر اس میں قسم قسم کی نباتا اگائی بصیرت، ہدایت اور یاددہانی کا سامان ہے یہ اور اس بندے کے لئے جو حق کی طرف رجوع ہو۔
قرآنِ پاک میں ارشادِ باری تعالی ہے:
اور زمین میں جتنے درخت ہیں اگر وہ سب قلم بن جائیں اور سمندر روشنائی جسے پھر سات سمندر روشنائی مہیا کرے پھر بھی اللہ کی باتیں ختم نہ ہونگی۔ بلاشبہ اللہ غالب اور حکمت والا ہے۔

(۲) علوم و فنون کی معراج - توحید

اور وہ آسمان و زمین کا موجد ہے اور جب وہ کسی بات کا فیصلہ کرتا ہے تو اسکے لئے صرف یہی حکم دیتا ہے کہ ہوجاو تو وہ ہوجاتی ہے۔
جدید سائنس اور علوم دورِ حاضر میں اپنی معراج کو پا چکیں ہیں۔ یہ تمام علوم و فنون آج اس نتیجہ پر پہنچ چکیں ہیں کہ اللہ تعالی کا نظامِ قدرت انسانی فطرت کے عین مطابق ہے۔ مثال کے طور پر فزکس کی رو سے کائنات کا ہر زرہ جمال چھوٹے چھوٹے (atoms) یا (Molecules) سے بنا ہے۔ ان (atoms) میں (electrons) پائے جاتے ہیں جو ایک مدارکے گرد گردش کرتے ہیں۔ یہ بات انسانی تحقیق کے بعد سامنے آئی ہے جبکہ اسلام نے قدرت کا یہ طرز’ عمل بہت پہلے واضح کردیا تھا۔ اسلام نے حج میں طوافِ کعبہ کا طریقہ متعین کیا۔ وہ تمام ان اشیاع سے مطابقت رکھتا ہے جو ایک دائرے میں گردش کررہی ہے اور (electrons) بھی (Molecules) میں یہی طریقہ اپنائے ہوئے ہیں۔ یہ تمام حقائق و واقعات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ اس کائنات کو چلانے والی ذات ایک الہ ہی ہے اور اسی کا نظام قدرت کی ہر شے پر نافذ ہے۔
قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:
نہ سورج کی مجال ہے کہ چاند کو پکڑ سکے اور رات دن سے پہلے آسکتی ہے یہ سب ایک ہی دائرے میں تیر رہے ہیں۔

(۳) پیمانہ فکر (اگر ایک سے زیادہ خدا ہوتے؟)

اگر کسی کمپنی کو ایک سے زیادہ مالکان چلائیں تو عام مشاہدے میں یہ بات آتی ہے کہ چھوٹے چھوٹے اختلافات ہر وقت موجود رہتے ہیں اور یہی چھوٹے اختلافات بڑے جھگڑوں کی شکل اختیار کرلیتے ہےں۔ غرض اس نظام کی تباہی کا سبب بنتے ہیں۔
خود ہی سوچئے کہ اگر اس زمین و آسمان کو چلانے والے ایک سے زائد خدا ہوتے تو کیا اس کرہ ارض میں انسانوں اور دیگر مخلوقات سکون و چین کے ساتھ زندگی بسر کرتے اور کیا نظام کائنات بہتر طور پر چل سکتا ہے۔ بعض مذاہب ہیں تو یہ حال ہے کہ ان کا کھانے پینے کا الگ خدا ہے، بارش کا الگ اور دوسرے معاملات کا الگ خدا۔ غرض ہر شعبہ زندگانی کا ایک الگ اور نیا خدا متعین ہے اور تمام خدا ایک دوسرے کے محتاج کی وجہ سے اپنی مرضی سے کوئی بھی کام نہیں کرسکتے غرض انسانی فکر سے یہ بات واضح ہوگئی کہ اس کائنات کو چلانے والے خداوں کی تعداد ایک سے زائد ہونا ناممکن ہے۔
سورة الانبیاءمیں ارشاد ہوتا ہے:
اگر دونوں (زمین و آسمان) کو چلانے والے اللہ تعالی کے علاوہ معبود ہوتے تو دونوں (زمین و آسمان) میں فساد برپا ہوجاتا۔
شرک
 
شرک سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالی کی ذات میں کسی دوسرے کو حصہ دار یا ساتھی ٹھہرایا جائے۔ قرآن مجید میں شرک کو بہت بڑا گناہ قرار دیا گیا ہے: بے شک شرک بہت بڑا بھاری ظلم ہے۔
ایک اور جگہ ارشاد ہوتا ہے:
اللہ یہ بات معاف نہیں کرتا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک بنایا جائے۔
قرآن مجید کی رو سے شرک کی تین اقسام ہیں:

(۱) ذات میں شرک (۲) صفات میں شرک (۳) صفات کے تقاضوں میں شرک
صفات کے تقاضوں میں شرک سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالی جن خصوصیات کا مالک ہے ان کے علاوہ کسی اور کو ان خصوصیات کا ساجھی ٹھہرایا جائے۔ اسی سے مدد طلب کی جائے اور اس کی بندگی و غلامی کی جائے۔ صفات کے تقاضوں میں
شرک علماءکرام کے نزدیک گناہِ عظیم ہے۔ ارشادِ باری تعالی ہے:
اور پکڑتے ہیں اللہ کے سوا کہ شائد ان کی مدد کریں۔ نہ کرسکیں گے ان کی مدد اور یہ ان کی فوج در فوج پکڑی جائے گی۔
سورة ھود مےں ارشادِ باری تعالی ہے:
خدا ہی کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔

عقیدہ توحید کے اثرات
توحید وہ عقیدہ ہے جس پر ایمان رکھتے ہوئے انسان کی شخصیت نکھر جاتی ہے اور اللہ تعالی کی رحمتیں نازل ہوتیں ہیں۔
عقیدہ توحید کے انسانی زندگی پر مندرجہ ذیل اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

(۱) اطمینانِ قلب و روح  
جب انسان اس بات پر یقین کرلیتا ہے کہ اس کا معبود ایک ہے، رازق ایک ہے اور وہ تمام اشیاع پر قدرت رکھتا ہے تو وہ یکسوئی کے ساتھ اسی ایک معبود کی عبادت کرتا ہی ۔ اس خالص بندگی سے اسے جو رجائیت اور اطمینانِ قلب نصیب ہوتا ہے وہ اسے زندگی کی شاہراہ پر رواں رکھتا ہے اور وہ آسانی سے اپنی زندگی کامنشاءپالیتا ہے۔
(۲) خودداری  

معبود واحد کا یقین انسانی شخصیت میں خودداری پیدا کرتا ہے۔ وہ اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ اس کا پالنے والے اللہ ہے اس لئے کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتا اور خودداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے عزت افروز زندگی بسر کرتا ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ: اپنا منہ سب کی طرف سے پھیر کر دین فطرت کی طرف کرلو۔
(۳) پاکیزگی نفس
 
عقیدہ توحید پر پختہ یقین انسان کو اپنے نفس کی حفاظت پر آمادہ کردیتا ہے۔ وہ اپنے نفس کی پاکیزگی کو بڑھانے کے لئے اللہ تعالی کے احکامات کی پیروی کرتا ہے اور قرب الہی کی بدولت اپنے نفس کی پاکیزگی کو بڑھانے کے لئے اللہ تعالی کے احکامات کی پیروی کرتا ہے اور قربِ الہی کی بدولت اپنے نفس کی پاکیزگی و تقوی کے اضافے کے لئے کوشاں رہتا ہے۔
(۴) بہادری
 
جب انسان اس بات پر یقین کرلیتا ہے کہ وہ ایک اللہ کا بندہ ہی اور وہی اللہ اس کی حفاظت کررہا ہے تو اس میں بہادری اور جانثاری کے جذبات پیدا ہوجاتے ہیں۔ یہی مردِ مومن جب میدانِ عمل مین قدم رکھتا ہی تو یہ بہادری اسے اپنے سے دس گنا طاقت کے دشمن سے لڑنے پر آمادہ کردیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں نے کم تعداد کے باوجود کفارومشرکین کی بڑی بڑی فوجوں کو شکستِ فاش دی اور غزوات میں کامیابی سے ہمکنار ہوئے۔

حرفِ آخر


اسلام نے اسی عقیدے کو بنیاد بنا کر تمام نماز و روزے کی ابتدا میں دعا سکھائی ہے:
سب تعریفےں تمام عالموں کے رب کے لئے ہیں جو نہایت رحمن و رحیم ہے۔ اے اللہ! ہم تیری عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔ دکھادے تو ہم کو سیدھا راستہ۔ ان لوگوں کا راستہ جن پر تونے انعام کیا ناکہ ان لوگوں کی راہ جن پر تونے غضب کیا۔ (آمین!)

ENGLISH ESSAY (A VISIT TO A HILL STATION)

ENGLISH ESSAY

               A VISIT TO A HILL STATION

"The best part of the beauty is that which no picture can describe".
My love of adventure is natural to me of course, the degree of love varies from person to person. My adventuresome one nature promoted me and a cousin of mine suggested to visit Murree Hills. Murree. a beautiful valley situated between the huge mountains of Himaliya range.
It was almost mid of July when we all cousins left for Murree. We enjoyed the whole journey from Lahore to Rawalpindi. We reached Rawalpindi at 10 o' clock. We rested for a while in Rawalpindi and purchased many things of daily needs.
We reached Murree at 2 p.m. the same day. The weather was gusty and dusty. The huge masses of clouds appeared in the winking of an eye. An inky darkness prevails everywhere. Cool wind was blowing Birds were diving up and down on the waves of cool breeze. And at that time, it seemed as if:
"Nature is standing in front of us in all its beauty and grace".
We put up at an old hotel "Sunny View". After having rested there for a while, we came out to have a view of Murree hills. The valley below hills looked like a great cup full of flowers and flowing streams. The beautiful flowers of eye catching colours were dancing in cool breeze and looking so beautiful, as the poet says;
"See how the flowers as at parade, under colours stand displayed."
Next day, we walked to Kashmir point and enjoyed ourselves with its scenic beauty. When it was dark, we made for our hotel. A gentle shower of rain began to fall. When it started-tipping it down, it also created a musical sound and that was the beauty and music of nature. After a while, it started raining cats and dogs and continued till late at night, but when it was dawn, the rain stopped.
After our breakfast, we went out to see Salmi Sanitorium. Salmi is a beautiful spot situated in a fine valley. There are fruit garden on slopes. On our way back, we crossed two fast moving streams. Their silvery water was clear and cool. The number of glowing colours looked as much beautiful as:
"The best and most beautiful things in the world cannot be seen or even touched.
They must be felt with heart." (Hellen Keller)
Next day. we went to Patriata, early in the morning. We enjoyed to have a ride of chair-lift. It was an interesting'experience. Running clouds, blowing breeze and bird eye view of Murree Hills. It seemed like a dream.
In our ten days visit of Murree Hills, we enjoyed hiking, and did a lot of shopping from Murree Mall. These moments are unforgettable for me. Those days were most well-spent days of my life.
Beauty of Murree Hills left a lasting imprint on screen of my mind. It will be commemorating me of the switching beauty of Murree forever, because; "A thing of beauty is a joy forever."
 

ENGLISH ESSAY

ENGLISH ESSAY

                     MY FAVOURITE POET

Allama Iqbal is our national poet. He was born at Sialkot on November 9, 1877. He belonged to a respectable Kashmiri family. One of his forefathers left Kashmir and settled in Sialkot. His father Sheikh Nur Muhammad was a very pious and religious man. Allama Iqbal inherited mysticism and deep love of his religion from his parents.

AJIama Iqbal received his early education from Mission High School, Sialkot and passed Intermediate examination from Murray College. His teacher Molvi Syed Mir Hassan was one of the most learned and pious man of his time. Iqbal had the good fortune of studying Arabic, Persian and lslamiat under the inspiring guidance of his teacher. In one of his poems, he applauded the love affection and care of his teacher bestowed upon him. Then he went to Lahore and passed his M.A examination from Government College, Lahore. He joined the teaching staff of the Govt. College Lahore and served there for some time.

In 1905, he went to Europe for higher studies in Philosophy and Law. He did his Ph.D. in Philosophy from Germany and Bar at-Law from London. He served as a professor of Arabic in London University for six months. His stay in Europe was of great importance. He was not impressed by the Western civilization^ He disliked the Western civilization. That is why he criticized it in his poetry. His hatred is quite prominent in his poems. He also predicted that the materialistic civilization of the West is to lead them only towards destruction.

When he returned home, he started law practice in the Lahore High Court. But he was more interested in poetry than law. Most of his time, he devoted to poetry philosophy and religion. He aroused the Muslims through the message of his poetry. In fact, he had great love and sympathy for the Muslims of India. He wanted to help them. He wrote many poems. He asked the Muslims of the whole world to unite.

Iqbal presided over the Allahabad Session of the All-India Muslim League in 1930. Here, he gave us the idea of Pakistan. He said that the only solution of the problems of the Indian Muslims was a separate Muslim State. He preached that slavery was greatest curse. The Muslims should break the chains of slavery. He pointed out the main causes of the degradation and humiliation of the Muslims in his poems "Shikwa" and "Jawab-e-Shikwa".

Allama Muhammad Iqbal was a great poet of Urdu and Persian. He was an inspired and creative poet. He dreamt of a separate homeland for the Muslims of the Sub-Continent. But he could not live long to see his dream materialize in the shape of Pakistan in 1947. He died on the 21st April, 1938. His death was a great loss for the Muslims. He was buried, near the gate of Shahi Masjid. Lahore. Every year Iqbal Day is celebrated to pay him homage. May his soul rest in peace.

He wrote many books such as Bangi-i-Dara, Bal-e-Jabreel, Zarb-e-Kalim, Israr-e-Khudi, Ramuz-e-Bekhudi, Javaid Nama, etc.


Monday, November 11, 2013

شاعر کی خصوصیات خواجہ میر درد

شاعر کی خصوصیات
خواجہ میر درد

ایک تعارف

تا قیامت نہیں مٹنے کا دلِ عالم سے
درد ہم اپنے عوض چھوڑے اثر جاتے ہیں

خواجہ میر درد دہلی کے ان معروف شعراءمیں سے ہیں جن کی وجہ سے دہلی کی عمارتِ سخن قائم تھی۔ میر درد کو کئی اعتبار سے امتیازی حیثیت حاصل ہے۔ وہ ایک بلند فکر‘ درویش صفت اور صاحبِ حال انسان تھے جن کی زندگی توکل کااعلیٰ نمونہ ہے۔ درد نے جب شاعری کی دنیا میں اپناکمال دکھایا تو اردو شاعری رنگِ تغزل کے ساتھ ساتھ رنگِ تصوف سے بھی مالا مال ہو گئی۔ ان کی شاعری میں ایک طرف تصوف کا گلاب مہک رہا ہے تو دوسری طرف معرفت کے موتی چمک رہے ہیں۔ کہساروںکا سا تکلم‘ آبشاروں کاسا ترنّم اور چاندنی جیسی پاکیزگی ان کے کلام کو معطر و منور کرتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان کو دنیائے سخن میں شہنشائے تصوف کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور عام معاصر اور متاخر تذکرہ نگار ان کاذکر کمالِ احترام سے کرتے ہیں۔
نواب جعفر علی خان درد کے بارے میں کہتے ہیں۔
اُن کے پاکیزہ کلام کے مطالعے کے لئے پاکیزہ نگاہ درکار ہے۔
درد کے محاسنِ کلام
خواجہ میر درد کے طرزِ کلام کی خصوصیات درج ذیل ہیں۔

تصوف کا رنگ

خواجہ میر درد کی زندگی اور شاعری دونوں تصوف کے انوار میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ اسی لئے وہ اردو کے سب سے بڑے صوفی شاعر کہلاتے ہیں۔ ان کا منفرد اندازِ بیان ان کو دیگر صوفی شعراء سے ممتاز کرتا ہے۔ وہ اپنے طرزِ فکر کو نرم و ملائم مصرعوں میں بیان کرتے ہیں جو ان کی قلبی کیفیتوں کا آئینہ دار ہیں۔ بطور امثال
 
ارض و سما کہاں تیری وسعت کو پا سکے
  میرا ہی دل ہے وہ کہ جہاں تو سما سکے
ہے غلط گر گمان میں کچھ ہے
تجھ سوا بھی جہان میں کچھ ہے
 
جگ میں آکر ادھر ادھر دیکھا
تو ہی آیا نظر جدھر دیکھا

  سادگی

درد اپنے احساسات کی ترجمانی نہایت سہل ،شستہ‘ ہلکی پھلکی اورعام فہم زبان میں کرتے ہیں۔ ان کے اشعار میں سلاست اور روانی ہے جو ان کے کلام کو نہایت پر اثر بناتا ہے اور قاری نہایت آسانی سے سمجھ جاتا ہے۔ بقول درد
آتشِ عشق جی جلاتی ہے
یہ بلا جان پر ہی آتی ہے
  دل زمانے کے ہاتھ سے سالم
کوئی ہوگا کہ رہ گیا ہوگا

ذکر وہ میرا کرتا تھا صریحاً لیکن
میں نے پوچھا تو کہا خیر یہ مذکور نہ تھا

حوصلہ مندی

درد کا دور تاریخی اعتبار سے پر آشوب دور تھا۔ حالات کی ناسازگاری اور فکر معاش کی وجہ سے کئی شعراء لکھنو اور دوسرے مقامات کا رخ کر رہے تھے۔ لیکن ان تمام حالات کے باوجود درد کی پائے استقامت میں کوئی لغزش نہ آئی اور وہ تمام عمر دہلی میں رہ کر حالات کا مقابلہ کرتے رہے۔ ان کی اس کیفیت کا رنگ ان کے کلام میں بھی نظر آتا ہے

آیا نہ اعتدال میں ہرگز مزاجِ دہر
میں گرچہ گرم و سردِ زمانہ سمو گیا  

حیران آئینہ دار ہیں ہم
کس سے دوچار ہیں ہم
 
جان پر کھیلا ہوں میں‘ مگر جگر دیکھنا
جی رہے یا نہ رہے پھر بھی ادھر دیکھنا


موسیقیت اور ترنّم

درد روکھے اور خشک مزاج صوفی نہ تھے۔ وہ فنونِ لطیفہ سے آشنا تھے خاص طور پر موسیقی سے گہرا لگاو رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام میں حسن ونغمگی کا احساس ہے۔ ان کی غزلیں موسیقی کی خاص دھنوں اور سرتال پر پوری اترتی ہیں۔ بطور مثال

     سینہ و دل حسرتوں سے چھا گیا

     بس ہجوم یاس جی گھبرا گیا
تہمتیں چند اپنے ذمے دھر چلے کس لئے آئے تھے کیا کر چلے
قتلِ عاشق کسی معشوق سے کچھ دور نہ تھا پر تیرے عہد کے آگے تو یہ دستور نہ تھا
بے ثباتی حیات
درد کی شاعری میں دنیا کی بے ثباتی کا رنگ جھلکتا ہے۔ ایک صوفی شاعر ہونے کی حیثیت سے وہ اپنے اشعار میں اس نظریہ کی ترجمانی کرتے ہیں کہ دنیوی زندگی عارضی ہے اوراصل زندگی وہ ابدی اور دائمی زندگی ہے جو بعد الموت شروع ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر
وائے نادانی کے وقت مرگ یہ ثابت ہوا
خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا

ساقی اس وقت کو غنیمت جان
پھر نہ میں ہوں‘ نہ تو‘ نہ یہ گلشن

درد کچھ معلوم بھی ہے یہ لوگ
کس طرف سے آئے تھے کیدھر چلے

امتزاجِ مجاز و حقیقت

شاعر کے کلام میں عشقِ مجازی اور عشقِ حقیقی کا رنگ کچھ اس طرح سے ہم آہنگ ہے کہ ان دونوں میں امتیاز کرنا دشوار ہو جاتا ہے۔ درد کا کمال یہ کہ ان اشعار کے مطالعے کے بعد قاری کے لئے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ وہ محبوبِ حقیقی سے ہمکلام ہیں یا محبوبِ مجازی سے۔ مثال کے طور پر
اپنے ملنے سے منع مت کر
اس میں بے اختیار ہیں ہم

جی کی جی میں رہی بات نہ ہونے پائی
حیف ہے ان سے ملاقات نہ ہونے پائی

کچھ ہے خبر کہ اٹھ اٹھ کے رات کو
عاشق تیری گلی میں کئی بار ہو گیا

سوز و گداز

اثرِ آفرینی اوردردمندی کلامِ درد کی نمایا ںخصوصیات ہیں۔ ان کی شاعری سادگی اور حقیقت نگاری کی وجہ سے دردواثر اور سوزوگداز کا مرقع ہے۔ ان کی ہر بات دل سے نکلتی ہے اور دل میں اترتی ہے۔ بقول محمد حسین آزاد۔

درد تلواروں کی آبداری نشتر میں بھر دیتے ہیں۔ 

بطور مثال درج ذیل نمونہ کلام پیش ہے 
 
زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے

خارِ مژہ پڑے ہیں مری خاک میں ملے
اے دشت اپنے کےجےو داماں کی احتیاط

وحدت الوجود
درد کا محبوب اللہ تعالیٰ ہے۔ ان کے کلام سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ وحدت الوجود کے قائل ہیں۔ ان کی نگاہ میں کائنات کا ہر ذرّہ ِِجمال نورِخداوندی کا مظہر ہے اور ہر شے میں ایک ہی ہستی جلوہ گر ہے۔ بقول درد
جوں نورِ بصر تیرا تصور
تھا پیشِ نظر جدھر گئے ہم

بیگانہ گر نظر پڑے تو آشنا کو دیکھ
بندہ گر آوے سامنے تو بھی خدا کو دیکھ

غزل کا رنگ
خواجہ میر درد کی شاعری میں ایک طرف تصوف کا گلاب مہک رہا ہے تو دوسری طرف رنگِ تغزل پورے گلشن کو مہکا رہا ہے۔ ان کے کلام میں غزل کے تمام لوازمات موجود ہیںخواہ وہ محبوب سے ناراضگی کا احساس ہو یا شامِ غم کی کیفیات۔ مثال کی طور پر
درد کوئی بلا ہے وہ شوخ مزاج
اس کو چھیڑا برا کیا تو نے

رات مجلس میں تیرے حسن کے شعلے کے حضور
شمع کے منہ پر جو دیکھا تو کہیں نور نہ تھا

معروف تنقید نگاروں کی آرائ

ایک مشہور و معروف شاعر ہو نے کی حیثیت سے میر درد کے بارے میں مختلف نقادوں نے اپنی آراء پیش کی۔ میرحسن لکھتے ہیں۔ درد آسمانِ سخن کے خورشید ہیں۔
مرزا علی لطف گلشنِ ہند میں لکھتے ہیں۔
اگرچہ دیوانِِ درد بہت مختصر ہے لیکن سراپا دردواثر رکھتا ہے۔
بقول رام بابو سکسینہ۔
درد کی غزلیں زبان کی سادگی اور صفائی میں میر کا کلام کا مزہ دیتی ہیں۔

URDU 2ND YEAR (New Book Modal Paper)