Sunday, November 10, 2013

Matric Urdu Notes Class 10th مرکزی خیال اور خلاصہ قرطبہ کا قاضی

Matric Urdu Notes Class 10th

مرکزی خیال اور خلاصہ

 قرطبہ کا قاضی

 مرکزی خیال

امتیاز علی تاج نے اپنے اس ڈرامے قرطبہ کا قاضی میں جس مرکزی کردار کو جگہ دی ہے وہ یہ ہے کہ انصاف کا ترازو عام و خاص، امیر و غریب، بلند و پست اور شاہ و گدا سب کے لئے یکساں ہوتا ہے۔ ایک عادل اور منصف حکمراں کی شان یہی ہے کہ وہ انصاف کے معاملے میں کسی کے ساتھ کسی قسم کی رعایت نہ برتے اور اس کی حکمرانی میں انصاف کا بول بالا رہے۔ خواہ اس کی خاطر اسے بڑی سے بڑی قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑے
شرع کہتی ہے کہ قاتل کی اڑا دو گردن



خلاصہ

شہرِ قرطبہ کے قاضی یحیی بن منثور کا بیٹازبیر ایک رشتہ دار کی لڑکی کی محبت میں گرفتار ہوا۔ ایک اور نوجوان بھی مہمان کی حیثیت سے قاضی کے گھر میں ٹہرا ہوا تھا وہ بھی اس لڑکی پر فریفتہ ہوجاتا ہے۔ زبیر رقابت کے جذبے سے مغلوب ہوکر اپنے رقیب کو موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے اور قاضی عدل و انصاف کے تقاضے کو پورا کرتے ہوئے اپنے بیٹے کو پھانسی کی سزا سناتا ہے۔
قاضی کے قدیم نمک خوار عبداللہ اور اس کی بیوی حلاوہ قاضی کے اس فیصلے سے خوش نہیں تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ زبیر جب تین دن کا تھا تو اس کی ماں چل بسی اورحلاوہ ہی نے اسے دودھ پلایا تھا۔ وہ اسے ماں کی طرح چاہتی تھی۔ عبداللہ نے بھی زبیر کو گود میں کھلایا تھا۔ عبداللہ اور حلاوہ کو معلوم ہے کہ زبیر قصوروار ہے اور قاضی بڑا اصول پسند ہے۔ دونوں سخت پریشان ہیں۔ زبیر کے بچنے کی کوئی صورت نہیں ہے۔ مگر عبداللہ کو اطمینان ہے اس کا خیال ہے کہ شہر کا ہر فرد زبیر کا حامی ہے اور کوئی بھی اسے تختہ دار پر چڑھانے کے لئے تیار نہیں۔ جلاد بھی روپوش ہوگیا اور عدالت کا کوئی افسر یا ماتحت بھی اس ناخوش گن فعل کو انجام دینے کے لئے تیار نہیں۔ بس ایک بی صورت رہ جاتی ہے کہ جلاد کا انتظام باہر سے کیا جائے۔ اس امکان کو دیکھتے ہوئے زبیر کے حامیوں نے شہر کے تمام راستوں کی ناکہ بندی کردی۔ حلاوہ پئر بھی مایوس ہے وہ جانتی ہے کہ قاضی اپنے فیصلے پر درآمد کرکے رہے گا۔
بے شمار لوگ قاضی کے مکان کے باہر کھڑے ہیں تاکہ ہر ممکن طریقہ سے اس سزا پر عمل درآمد نہ ہونے دیں۔ اتنے میں قاضی مکان کی بالائی منزل سے نیچے آکر پوچھتا ہے کہ سزائے موت کا انتظام کیوں نہیں ہورہا تو عبداللہ جواب دیتا ہے کہ اس حکم کی تعمل کے لئے کوئی بھی آمادہ نہیں۔ عدالت کے آدمیوں کو بلایا جاتا ہے تو وہ بھی معذوری ظاہر کرتے ہیں۔ غرض قاضی ہرطرف سے مایوس ہوکر عدالت کے آدمیوں کو کنجیاں دے کر حکم دیتا ہے کہ زبیر کو تختہ دار تک لے جاو۔
غم کی شدت سے قاضی کی حالت غیر ہورہی ہے مگر وہ انصاف اور قانون کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے اپنے بیٹے کو اپنے ہاتھوں سے پھانسی دے دیتا ہے۔ پھر وہ بھاری قدموں سے غم سے نڈھال اوپری منزل پر جاکر کمرے کو اندر سے ہمیشہ کے لئے بند کرلیتا ہے۔ اپنے غم سے نجات کی اسے صرف یہی ایک صورت نظر آئی تھی کہ وہ زندگی سے منہ موڑ لے۔


Matric Urdu Notes Class 10thمرکزی خیال اور خلاصہ (چین میں ایک دن اردو کے طالبعلموں کے ساتھ )

Matric Urdu Notes Class 10th

مرکزی خیال اور خلاصہ


چین میں ایک دن اردو کے طالبعلموں کے ساتھ

مرکزی خیال 

اس سفر نامے میں ابنِ انشاءنے ہمسایہ دوست ملک چین میں اردو کی مقبولیت کو بیان کیا ہے۔ اور بتایا ہے کہ زبانیں کسطرح سے آپس مےں محبت اور اتفاق کو بڑھاتی ہے۔ چین میں جہاں انہوں نے کچھ عرصے میں چینی زبان کو سیکھنے کی کوشش کی وہاں ان کو یہ دیکھ کر بڑی خوشی ہوئی کہ ہمارے چینی بھائی اردو بڑے ذوق و شوق سے سیکھتے ہیں اور باقاعدہ اردو میں تعلیم کا انتظام ہے۔ اردوزبان کو سیکھنے کو ذوق و شوق بجائے خود اردو کی مقبولیت ثبوت ہے۔ غیر ملکی زبانوں سے ان کی یہ دلچسپی ہمیں بھی دوسری زبانوں کو سیکھنے کی طرف مائل کرتی ہے۔

خلاصہ

 ابن انشاءکو جب ہمسایہ مالک چین جانے کا موقع ملا تو وہ چینی زبان سے واقف نہ تھے۔ لیکن انہوں نے کوشش کرکے اس زبان کی ابتدائی باتیں سیکھ لی۔ پھر انہیں یہ اطمینان تھا کہ چےنی لوگوں کی گفتگو میں جو باتیں ان کی سمجھ میں نہیں آئینگی وہ ان کا ترجمان ان کو اردو میں سمجھاتا رہے گا۔ بہر حال چین پہنچ کر وہ ترجمان کی عدم موجودگی میں بھی وہاں کے لوگوں کی باتیں آسانی سے سمجھتے رہے۔ یہاں طنزیہ و مزاحیہ انداز میں انہوں نے لکھا ہے کہ کچھ زبان زدو عام قسم کے الفاظ مثلاً شے شے(شکریہ) ان کے بہت کام آئے۔ ان دنوں اردو کے مشہور ادیب خاطر غزنوی بھی چین میں ہی تھے اور چینی زبان سیکھ رہے تھے۔ ابنِ انشاءنے طنزیہ انداز میں لکھا ہے کہ کافی دن گزرنے کے باوجود چینی زبان سے ان کی واقفیت بھی رسمی تھی۔
ایک دن ابنِ انشاءیونیورسٹی کے شعبہ اردو میں پہنچے وہاں مادام شان یون اردو پڑھانے پر مامور تھیں۔ انہوں نے مادام شان یو ن کو اپنی کتابیں پیش کیں اور پھر انکا شعبہ اردو کے طالب علموں سے تعارف ہوا اس پر یونیورسٹی اور شعبہ اردو میںچینی دستورکے مطابق سب نے تالیاں بجا بجا کر ان کا استقبال کیا۔ اردو پڑھنے والے جن طلباءسے تعارف ہوا ان میں کچھ اردو فرفر بولتے تھے۔ اور کچھ دقت کے ساتھ۔ اس کے بعد جب ہوسٹل دیکھنے کا موقع ملا تو یہاں بڑی سادہ سی صورتحال سامنے آئی۔ ہر کمرے میں دومنزلہ چارپائی اور ایک میز تھی۔ اور کتابوں کے لئے ایک الماری رکھی تھی۔ طلبہ بہرحال بڑی لگن سے اردو سیکھنے میں مصروف نظر آئے۔ مثلاً ان کی باتوں میں تذکیروتانیث کی کوئی غلطی دکھائی نہ دی۔

وہاں اردو کا اخبار ”جنگ“ بھی آتا تھا۔ اس کے بعد ابنِ انشاءکو لائبریری دیکھنے کا موقع ملا وہاں ادب کی کتنی ہی کتابیں موجود تھیں۔ ابنِ انشاءجس وفد کے ساتھ چین گئے تھے اس کے سربراہ چین میں اردو سے یہ دلچسپی اور ان کایہ فروغ دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور انہوں نے شعبہ اردو کے طلباءکو چائے کی دعوت دی پھر جب ابن انشاءکو اردو کی صدر شعبہ کی تحریر دیکھنے کا موقع ملا تو وہ مزید متاثر ہوئے اس کہ لئے ان کا خط خاصہ صاف تھا۔
غرض طالبعلموں نے اردو میں یہ دسترس دوسال سے بھی کم عرصے میں حاصل کی تھی اور ان کو اردو سکھانے والی استاد نے اردو کسی ادارے سے نہیں بلکہ ایک چینی سے پڑھی تھی ان سب کی اردو سے وابستگی دیکھ کر ابنِ انشاءاور تمام ارکانِ وفد کے چہرے خوشی سے دمک اٹھے۔

Matric Urdu Notes Class 10th مرکزی خیال اور خلاصہ (ہاسٹل میں پڑھنا)

Matric Urdu Notes Class 10th 

مرکزی خیال اور خلاصہ 

ہاسٹل میں پڑھنا

مرکزی خیال

ہاسٹل میں پڑھنا، احمد شاہ پطرس بخاری کا وہ مضمون ہے جس میں انہوں نے مزاحیہ اور دلچسپ انداز میں طالبعلموں کے اس طبقے کی فطرت ظاہر کی ہے جو پڑھائی کو تفریح طبع کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ اور درسگاہوں کو تفریح گاہ اور وہ اس ادارے سے اس قدر مانوس بھی ہوجاتے ہیں کہ چھوڑنا نہیں چاہتے لہذا جان کے فیل ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔

خلاصہ 

احمد شاہ پطرس بخاری نے اس مضمون کی ابتداءاپنے بی- اے سال اول میں ناکامی کے ذکر سے کی ہے۔ اس سے پہلے وہ ایف-اے کے امتحان میں کامیابی حاصل کرچکے تھے مگر وہ بھی اس طرح کہ ان کو ریاضی میں کمپارٹمنٹ امتحان دینا پڑا تھا۔ چنانچہ بی-اے میں انگریزی، تاریخ اور فارسی کے مضامین پڑھنے کے ساتھ ساتھ انہیں ایف-اے کے ریاضی کی تیاری بھی جاری رکھنی پڑی جو کہ ان کے لئے بڑی دشوار ثابت ہوئی۔ اسی دشواری کے پیشِ نظرانہوں نے سب کے مشوروں کے بعد بی- اے میں ریاضی کو خےرباد کہہ دیا تھا۔ مگر ایف - اے کاپرچہ ریاضی تو پاس کرنا ہی تھا۔ نتیجہ آیا تو فارسی اور تاریخ میں فیل ہوگئے۔ فارسی میں فیل ہونے سے ان کو بڑی ندامت ہوئی کیوں کہ ان کا تعلق علم دوست گھرانے سے تھا وہ تو خدا کی مہربانی ہوئی کہ اگلے سال فارسی میں اس سے اگلے سال تاریخ مےں پھر اگلے سال انگریزی میں پاس ہوگئے۔
بی-اے سال دوئم میں بھی کچھ یہی صورت حال رہی۔ کبھی وہ ایک پرچے میں فیل ہوئے اور کبھی دوسرے پرچے میں اسی طرح انہوں نے متعدد بار امتحان دئیے۔
آخری دفعہ بھی انہیں فیل ہونے کی توقع تھی وہ سوچ رہے تھے کہ عمر بھر آزادی نہیں ملی۔ گھر سے نکلے تو ماموں کے چھوٹے سے مکان مےں رہے اور جب یہاں سے نکلیں گے تو زندگی بھر اپنے بنائے ہوئے ڈربے نما مکان میں رہنا پڑے گا۔ چنانچہ اس دفعہ ہاسٹل مین رہ کر پڑھا جائے۔ اپنے اس خیال کو عملی جامہ پہنانے کے لئے انہوں نے سفارشیں کروائیں اور گھر والوں کو بڑے مشکل سے رضامند کیا اور بے چینی کے ساتھ نتیجے میں فیل ہونے کا انتظار کرنے لگے۔ مگر سارے منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ سپنے ٹوٹ گئے۔ نتیجہ آیا 
تو وہ کامیابی حاصل کرچکے تھے

To Principal Asking Permission for Visiting Pakistan Steel Mills and Making Necessary Arrangement for Transport:

To Principal Asking Permission for Visiting Pakistan Steel Mills and Making Necessary Arrangement for Transport:

The Principal,

X-Y-Z School, Karachi

SUBJECT: PERMISSION TO VISIT PAKISTAN STEEL MILLS.


Dear Sir,

With due respect, I beg to say that the students of our class wanted to visit Pakistan Steel Mills Karachi. We shall be accompanied by three of our senior teachers. This trip will be a beneficial trip for us, from which we can make increment in our knowledge by watching how machines actually work. We can also pick a valuable information for the forth-coming technical exhibition.

We will be grateful to you if you allow us to visit Pakistan Steel Mills and make necessary arrangements for transport.

                                                    Thanking You.

                                                                      Your's faithfully,
       
                                                                       XYZ                                                                                           

Students of Class X
Date: xx-xx-xxxx

Saturday, November 9, 2013

Urdu notes نثر نگار کی خصوصیات سرسید احمد خان

نثر نگار کی خصوصیات 

سرسید احمد خان

حالات ِ زندگی


سرسید احمد خان ۷۱۸۱ءمیں دہلی میں پیدا ہوا۔ والد کا نام میر تقی تھا جو ایک درویش منش بزرگ تھے۔ سرسید کی پرورش میں ان کی والدہ عزیز النساء بیگم کا بڑا ہاتھ تھا۔ جنہوں نے سرسید کی تعلیم و تربیت زمانے کی ضروریات کے مطابق کی۔۸۳۸۱ءمیں سرسید دہلی میں سرشتہ دار کے عہدہ پر مقرر ہوئے اس کے بعد منصفی کا امتحان پاس کرکے منصف ہوگئے۔ ۲۴۸۱ءمیں بہادر شاہ ظفر کی طرف سے ان کو جواد الدولہ عارف جنگ کا خطاب ملا۔

تصانیف

سرسید کی مشہور تصانیف میں مندرجہ ذیل شامل ہیں:

  • آثار الضادید
  • آئین اکبری
  • تاریخ ضلع بجنور
  • رسالہ اسباب بغاوت ہند
  • تصحیح تاریخ فیروز شاہ
  • تین الکلام
  • تفسیر الکلام
  • تفسیرالقرآن
  • خطباتِ احمدیہ

طرزِ تحریر کی نمایاں خصوصیات
سرسید کے طرزِ تحریر کی نمایاں خصوصیات درج ذیل ہیں:

قدیم رنگ 

سرسید نے سب سے پہلے اپنے بھائی کے اخبار سید الاخبار میں مضامین لکھنا شروع کئے۔ آثارالضادید میں وہی قدیم اسلوبِ بیان ملتا ہے۔ بلکہ ۷۵۸۱ءتک سرسید نے جو کچھ لکھا ہے امیں یہی رنگ نمایاں ہے۔ یعنی الفاظ کا بے محل استعمال اور قواعد سے بے پروا۔
وہ تحریر یا تقریر کی رو میں گرامر کی کچھ پرواہ نہیں کرتے تھے ۔وہ ان قیدوں سے جو شاعروں اور منشیوں نے مقرر کی ہیں بالکل آزاد ہیں۔
حالی  
 وہ دور ہی ایسا تھا کہ قواعد کی پابندی سخت نہ تھی۔ الفاظ کی بے ترتیبی عام تھی۔ اردو فقروں میں اکثر دھوکہ ہوتا تھا کہ فارسی کا ترجمہ ہیں لیکن سرسید کو اس امر کا احساس تھا کہ اس قسم کی تحریر بہتر نہیں ہے۔

جدید رنگ

سرسید کی شخصیت بڑی زمانہ شناس تھی۔ انہوں نے زمانے کا رنگ پہچان لیا تھا۔ جنگِ آزادی کی ناکامی کے بعد مسلمانوں کی سیاسی، تمدنی، تہذیبی اور معاشرتی زندگی کا نظام درہم برہم ہوچکا تھا۔ سرسید نے ایک مصلح قوم ہونے کی حیثیت سے اپنا مقصد حیات، مسلک زندگی اور لائحہ عمل متعین کرلیا اور تحریرو تقریر کے ذریعہ قومی و ملکی، مذہبی، معاشرتی، اخلاقی، علمی اور تعلیمی خدمات شروع کیں۔ انہوں نے آثار الضادید کو آسان زبان میں شائع کیا۔

سادگی و روانی

نثر کا روز مرہ کی سادہ بات چیت کی زبان سے قریب تر ہونا بہت ضروری ہے۔ سرسید نے اپنی نثر کو اسی نصب العین پر پورا اتارنے کی پوری کوشش کی ہے۔ اس میدان میں وہ اسٹیل اور ایڈیسن سے متاثر نظر آتے ہیں۔ جس طرح ایڈیسن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس نے ادب کو درباروں اور محلوں سے نکال کر قہوہ خانوں اور بازارون تک پہنچا دیا۔ اسی طرح سرسید نے اردو ادب کو خانقاہ، دربار اور کوچہ و بام سے نکال کر دفتروں، تعلیم گاہوں اور متوسط طبقے کے دل و دماغ تک پہنچا دیا اور اس سے زندگی کی رہنمائی کا کام لیا اور اردو نثر کو اس قابل بنادیا کہ وہ علمی کام کرسکے۔ سرسید پیچیدہ سیاسی مسائل، مذہبی نکات، اور دشوار اصلاحی مباحث کو بھی نہایت صفائی، سادگی اور بے تکلفی کے ساتھ بیان کردیتے ہیں۔ سرسید نے فلسفیانہ، سائنسی اور تنقیدی مضامین میں بھی سادگی کو ہاتھ سے جانے نہیں دیا اور ہر جگہ موضوع کی فطرت کے مطابق زبان استعمال کی ہے۔ انہوں نے کسی بحث میں بھی اصطلاحیں استعمال نہیں کی ہیں بلکہ ہر جگہ ان کی زبان عام فہم اور رواں ہے۔ ان کی تحریر کا جادو ہر شخص کو مسحور کرلیتا ہے۔ ان کا سب سے بڑا کمال اس وقت ظاہر ہوتا ہے جب وہ کسی عملی مسئلہ پر بحث شروع کرتے ہیں اور ان کی بحث اتنی سادہ، رواں اور مدلل ہوتی ہے اسے تسلیم کئے بغیر چارہ نہیں ہوتا۔

مقصدیت

یہ مقولہ کہ طرزِ ادا مصنف کی ہستی کا آئینہ دار ہوتا ہے سرسید پر صادق آتا ہے۔ ان کے طرزِ تحریر میں ان کی ہمہ گیر شخصیت ان کی زندگی اور ان کے ماحول کا مشترکہ ہاتھ تھا۔ سرسید پہلے ایک مصلح تھے پھر ایک ادیب ۔ ان کا طرز ایک ذریعہ تھا مقصد نہیںتھا۔ اپنی بات دوسروں تک پہنچانا یہی حقیقت سرسید کے انداز کا راز ہے۔ انہوں نے اپنی نثر سے قومی اصلاح کا کام لیا ہے۔ یہی وجہ تھی جو سرسید کے لئے کہا گیا:
سرسید سے معقولات الگ کرلیجئے تو وہ کچھ نہیں رہتے۔ مہدی آفادی
تہذیب الاخلاق کے تمام مضامین میں مقصدیت اور تبلیغی رنگ پایا جاتا ہے۔ تبلیغی نثر اردو میں سرسید سے پہلے بھی موجود تھی لیکن اس کی زبان صاف اور سادہ نہیں تھی۔

ظرافت

سرسید ایڈیسن اور اسٹیل سے متاثر ضرور نظر آتے ہیں لیکن انہوں نے ان کا مکمل رنگ اختیار کیا ہے۔ کیونکہ ایڈیسن نے اصلاح احوال کے لئے مزاحیہ انداز اختیار کیا ہے اور اپنے معاشرے کی بد اخلاقیوں اور برائیوں کا دل کھول کر تمسخر اڑایا ہے۔ سرسید میں مزاح نگار کی صلاحیتیں کم تھےں اس لئے وہ مکمل طور پر ان کا رنگ اختیار نہ کرسکے۔ انہوں نے کوشش ضرور کی ہے اور اس سے موقع محل کے مطابق کام لیا ہے۔ اس کی بہترین مثال ان کے مضمون طریق تناول طعام میں ملتی ہے۔ جس میں انہوں نے مزاحیہ انداز میں یہ بتایا ہے کہ مسلمان کس برے طریقے سے کھانا کھاتے ہیں۔

تمثیلی رنگ

مقالات میں تمثیلی رنگ اختیار کرنے کا سہرا سرسید کے سر ہے۔ اس سلسلہ میں ان مضامین میں امید کی خوشی سے بہتر مضمون شاید ہی دوسری زبانوں میں اردو ادب میں تو اس کا ثانی نہیں ملتا۔ سرسید کی فطرت میں چھپی ہوئی رومانیت اس مضمون میں نمایاں ہے۔ اور اس نے اردو نثر نگاری میں ایک نیا باب کھالا ہے۔ اس کا مقابلہ چارلس لیمپ کے مضمون ڈریم چلڈرن سے کیا جاسکتا ہے۔

مقالہ نگاری

اردو ادب کی تاریخ میں سرسید پہلے شخص ہیں جہنوں نے فن مقالہ نگاری کی ابتدا کی۔ سرسید کے اخبارسوسائٹی گزٹ اورتہذیب الاخلاق سے پہلے بہت سے اخباروں اور رسالوں میں مذہبی، اخلاقی اور علمی مقالے شائع ہوئے تھے۔ لیکن سرسید نے نئے موضوعات پر قلم اٹھایا، خوشامد، بحث و تکرار، رسم ورواج اور سویلزیشن وغیرہ پر انہوں نے صاف اور سادہ زبان میں مقالے لکھے۔ سرسید نے آزادی رائے پر ایک اصلاحی مقالہ تحقیقی رنگ میں لکھا۔

تہذیب الاخلاق

انگلستان سے واپسی پر انہوں نے انگلستان کے مشہور اخبارات اسپیکٹیٹر اور ٹیٹلڑ کے انداز پر رسالہ تہذیب الاخلاق نکالا۔ اس سے انہوں نے نہ صرف اپنی نثر نگاری کی ابتدا کی بلکہ اردو نثرنگاری کے لئے ایک صحیح اور سیدھا راستہ کھول دیا۔
سرسید نے کام کی زبان میں کام کی باتیں لکھنا سکھائیں۔ تہذیب الاخلاق نے مردہ قوم میں زندہ دلی کی ایک لہر پیدا کردی ۔ قوم میں ایک غیر معمولی جوش عمل پیدا ہوا ایک نئی زندگی نے انگڑائی لی جس نے ہر شعبہ فکر کو بدل دیا۔ پروفیسر آل احمد سرور

دبستانِ سرسید

سرسید انیسویں صدی کے ہندوستان کی عظیم شخصیت رہبر و مصلح تھے۔ وہ مسلمانوں کے اخلاق، مذہب، معاشرتی زندگی، تعلیم، رسم و رواج اور زبان و ادب وغیرہ کی اصلاح کرنا چاہتے تھے۔ اس اصلاحی کوشش میں ان کو محسن الملک، مولوی چراغ علی، مولوی ذکاءاللہ، حالی نذیر احمد، شبلی نعمانی اور مولوی زین العابدین جیسی شخصیتیں مل گئیں۔ جنہوں نے سرسید کے دوش بدوش اس عظیم مقصد کی تکمیل کی کوشش کی جس کے لئے سرسید نے اپنی پوری زندگی وقف کردی۔ اس تحریک نے مسلمانوں کی کایا پلٹ دی۔

عظمتِ سرسید

سرسید کی عظمت کو ان الفاظ میں بیان کیا جا سکتا ہے:
سرسید نے ادب اور معقولات پر جس حد تک مجتہدانہ رنگ چڑھایادراصل ان کی اولیات میں داخل ہونے کے لائق ہے۔ یہ ان ہی کے قلم کی آواز بازگشت ہے جو ملک مےں بڑے بڑے مصنف کے لئے دلیل راہ بنی۔ آج جو خےالات بڑی آب و تاب اور عالمانہ سنجیدگی کے ساتھ مختلف لباس میں جلو ہ گرکئے جاتے ہیں دراصل اسی زبردست اور مستقل شخصیت کے عوارض ہیں۔ ورنہ پہلے یہ جنس گراں باوصف استطاعت اچھے اچھوں کی دسترس سے باہر تھی۔ سرسید کے کمالات ادبی کا عدم اعتراف صرف ناشکری صرف ناشکری ہی نہیں بلکہ تاریخی غلطیہے۔ مہدی آفادی



2nd year Urdu Khulasa: آرام و سکون

2nd year Urdu Khulasa

 آرام و سکون


تعارف


یہ ڈرامہ جسے یک منظری پلے (One Act Play) کہا جاتا ہے، سید امتیاز علی تاج کا ایک طنزیہ ڈرامہ ہے۔تاج نے اور بھی بہت طویل اور مختصر ڈرامے لکھے لیکن ان کی سب سے مشہور تصنیف ”چچا چھکن“نامی مزاحیہ افسانوں کا مجموعہ ہے، جس میں ایک کردار چچا چھکن کی پر لطف حماقتیں دکھائی گئیں ہیں۔


خلاصہ

اس ڈرامے کا خلاصہ فقط اتنا ہے کہ ایک گھر کا مالک جسے ڈرامے میں میاں دکھایا گیا ہے، اپنے دفتر میں بہت زیادہ کام کرتے رہنے کے باعث تھک کر بیمار ہوگیا ہے۔ ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق اسے پوری طرح آرام، سکون اور تنہائی کی ضرورت ہے لیکن میاں کی سادہ لوح اور کسی قدر غصہ ناک بیوی اپنی دانست میں اس کے لئے جتنے بھی جتن کرتی ہے کہ وہ آرام و سکون پائے اتنا ہی وہ بے آرام اور بے سکون ہوتا جاتا ہے اور آخر کار تنگ آکر وہ پھر اسی دفتر کو جانے کے لئے تیار ہوجاتا ہے جہاں کی محنت، ہنگامہ آرائی اورشور شرابے سے بچنے کے لئے وہ گھر آکر لیٹا تھا، کیونکہ گھر پراس کی بیوی کی حماقتوں کی بدولت دفتر سے بھی زیادہ بے آرامی اور شوروغل وغیرہ پیدا ہوگیا تھا اور میاں کو اپنے گھر سے زیادہ دفتر میں آرام و سکون ملنے کی توقع تھی


2nd year Urdu Khulasa:ہمسفر

2nd year Urdu Khulasa




ہمسفر

تعارف

ہم سفر جدید افسانہ نگار انتظار حسین کے قلم کی تخلیق ہے۔ انتظار حسین ایک علامتی افسانہ نگار ہیں۔ جنہوں نے قیام پاکستان کے بعد تہذیبی روایات کو برقرار رکھا اور اردو افسانے کو جدت کی راہ پر گامزن کیا۔ ان کے افسانوں کا موضوع انسان ہے اور انسان کے اندر پائی جانے والی مختلف جہتوں کو اجاگر کرنا ان کا مقصد۔ ان کے یہاں بیانیہ، تمثیلی اور علامتی ہر قسم کے افسانے ملتے ہیں۔
انتظار حسین غالباً اردو کے پہلے افسانہ نگار ہیں جنہوں نے انسانوں کے اخلاقی اور روحانی زوال کی کہانی مختلف زاویوں سے لکھی ہے- پروفیسر سجاد رضوی
 
خلاصہ
یہ ایک ایسی کہانی ہے جو انسان میں پائی جانے والی ارادے کی کمزوری اور غیر مستقل مزاجی کی عکاسی کرتی ہے۔ افسانہ نگار نے علامتی طور پر ایک شخص کا سفر بیان کیا ہے جو غلط بس میں سوار ہوجاتا ہے۔ دورانِ سفر اس کے ذہن میں مختلف خیالات کا جوار بھاٹا اٹھتا رہتا ہے اور وہ کسی ایک خیال کو بھی عملی جامہ نہیں پہنا پاتا۔ اسے یہ احساس کچھ دیر کے بعد ہوجاتا ہے کہ وہ غلط بس میں سوار ہے لیکن بس کی رفتار اور رش کی وجہ سے وہ کوئی قدم نہیں اٹھاپاتا۔ بس ماڈل ٹاون کی تھی۔ یہ اسے اس وقت پتہ چلتا ہے جب ایک نوعمر لڑکا بدحواسی کے عالم میں پوچھتا ہے کہ کیا یہ بس ماڈل ٹاون جائے گی؟
پہلے تو وہ اگلے اسٹاپ پر اترنے کا فیصلہ کرلیتا ہے۔ لیکن پھر سوچتا ہے کہ وہاں سے دوسری بس باآسانی نہیں مل سکے گی۔ جیسے جیسے اسٹاپ گزرتے جاتے ہیں اسے احساس ہوتا ہے کہ وہ منزل سے دور ہوتا جارہا ہے۔ بالآخر وہ اپنے آپ کو مجبور پاکر فیصلہ کرتا ہے کہ وہ آخری اسٹاپ تک جائے گا اور پھر کوئی فیصلہ کرے گا۔
ماڈل ٹاون کے ذکر سے اسے اپنا دوست یاد آیا جو پہلے ماڈل ٹاون میں رہائش پذیر تھا اور ان دنوں امریکہ جا چکا تھا۔ پھر اسے امریکہ جانے والے دیگر دوست یاد آئے اور پاکستان میں رہ جانے پر افسوس ہوا۔
کنڈکٹر کے تاخیر سے آنے کی وجہ سے اس کے اندر ضمیر اور نفس کی جنگ شروع ہوجاتی ہے۔ بددیانتی اسے ٹکٹ نہ لینے پر اکساتی ہے لیکن وہ ایسا نہیں کرپاتا۔ کچھ دیر بعد جب وہ کنڈکٹر کو کرایہ دے دیتا ہے تو سوار ہونے کی جگہ نہیں بتاتا۔ چنانچہ جب کنڈکٹر کرایہ کم لیتا ہے تو ایک مرتبہ پھر اس کا ضمیر ملامت کرتا ہے اور آخر کار
بقول مصنف:
اس نے آس پاس کے مسافروں پر چور نظر ڈالی۔ سونے والے ہمسفر کو دیکھ کر اطمینان کا ایک سانس لیا اور پیسے اور ٹکٹ جیب میں رکھ لئے۔
اس کا سفر جاری رہتا ہے۔ مختلف مقامات پر سے سوار ہونے والون کی بے قراری اور اترنے والوں کی بدحواسی، سیٹوں پر بیٹھنے کے لئے مسافرون کی کھنچا تانی اور کسی مسافر کی زبانی کہیں کی کہانی سب سنتا اور دیکھتا رہتا ہے۔
پہلے تو اس نے سوچا تھا کہ وہ غلط بس میں سوار ہوگیا ہے لیکن اب اسے احساس ہوتا ہے کہ صحیح اور غلط تو مسافر ہو تے ہیں۔ بس تو اپنے ہی راستے پر چلتی ہے۔ پھر اس کے ذہن میں یہ خیال ابھرتا ہے کہ اس کا کوئی ہمسفر نہیں ہے کیونکہ دیگر افراد تو اپنی منزل کی جانب گامزن ہیں جبکہ وہ تنہا ہی غلط راستے پر چل رہا ہے۔
منتشر افکار کے اس سفر کے ساتھ ساتھ بس کا سفر بھی جاری رہتا ہے۔ یہاں تک تمام مسافر ایک ایک کرکے اتر جاتے ہیں۔ بس میں صرف وہ یا بھر اس کا مدہوش ہم سفر باقی رہ جاتاہے جو اس کے دکھتے کاندھے پر سررکھے سورہا تھا۔ یہ مختصر سا سفر حیاتِ انسانی سے بھرپور مماثلت رکھتا ہے۔ جس کا ذکر افسانہ نگار نے بھی کیا ہے۔ انسانی زندگی کا سفر بھی مختلف احساسات و جذبات اور فیصلوں کی کشمکش کا نام ہے جس کو طے کرنے کے لئے صحیح وقت پر صحےح قدم کی ضرورت ہے۔
بقول شاعر

زندگی کیا ہے کسی سہمی ہوئی آنکھ سے پوچھ
صرف ایک خوابِ پریشان، جو دیکھا نہ جائے


URDU 2ND YEAR (New Book Modal Paper)