Friday, November 15, 2013

ESSAY-Women's Rights In Islam

Women's Rights In Islam


At a time when the rest of the world, from Greece and Rome to India and China, considered women as no better than children or even slaves, with no rights whatsoever, Islam acknowledged women's equality with men in a great many respects. 

The Qur'an states:

"And among His signs is this: that He created mates for you form yourselves that you may find rest, peace of mind in them, and He ordained between you love and mercy. Lo, herein indeed are signs for people who reflect." [30:21]

Prophet Muhammad(PBUH) said:

"The most perfect in faith amongst believers is he who is best in manners and kindest to his wife." [Abu Dawud]

Muslims believe that Adam and Eve were created from the same soul. Both were equally guilty of their sin and fall from grace, and both were forgiven by Allah. Many women in Islam have had high status; consider the fact that the first person to convert to Islam was Khadijah,the wife of Muhammad, whom he both loved and respected. His favorite wife after Khadijah's death, AŒisha, became renowned as a scholar and one of the greatest sources of Hadith literature. Many of the female Companions accomplished great deeds and achieved fame, and throughout Islamic history there have been famous and influential scholars, jurists and mystics.
With regard to education, both women and men have the same rights and obligations. This is clear in Prophet Muhammad's saying:

"Seeking knowledge is mandatory for every believer." [Ibn Majah]

This implies men and women.
A woman is to be treated as God has endowed her, with rights, such as to be treated as an individual, with the right to own and dispose of her own property and earnings, enter into contracts, even after marriage. She has the right to be educated and to work outside the home if she so chooses. She has the right to inherit from her father, mother, and husband. A very interesting point to note is that in Islam, unlike any other religion, a woman can be an imam, a leader of communal prayer, for a group of women.
A Muslim woman also has obligations. All the laws and regulations pertaining to prayer, fasting, charity, pilgrimage, doing good deeds, etc., apply to women, albeit with minor differences having mainly to do with female physiology.
Before marriage, a woman has the right to choose her husband. Islamic law is very strict regarding the necessity of having the woman's consent for marriage. A marriage dowry is given by the groom to the bride for her own personal use. She keeps her own family name, rather than taking her husband's. As a wife, a woman has the right to be supported by her husband even if she is already rich. She also has the right to seek divorce and custody of young children. She does not return the dowry, except in a few unusual situations.
Despite the fact that in many places and times Muslim communities have not always adhered to all or even many of the foregoing in practice, the ideal has been there for1,400 years, while virtually all other major civilzations did not begin to address these issues or change their negative attitudes until the19th and 20th centuries, and there are still many contemporary civilzations which have yet to do so.


Essay - Uses and Abuses of Media

Uses and Abuses of Media


Imagine a city without televisions, radios or Internet connections. All these media facilities provide people awareness of what is going on around them. Electronic as well as Print Media is an effective way of communication as it provides link between ordinary persons and others in the world. It is only due to newspapers that we can read in the morning about the events that took place on the other side of the world only the day before. Besides, electronic media can telecast live happenings from around my corner of the world. Radio, Television and Internet are inventions that extend across all areas of internet including weather forecasts, entertainment, educational broadcasts, business and important political and social events. Companies that want to sell their products by advertising also make use of media. Media is very important in the fast moving world, because without media the society would be unaware of the local and foreign affairs.
Now, we come to the drawbacks of media. Electronic media is the most unpredictable mean of spreading knowledge among people. One gets biased and one-sided views through this media and nobody can rely on truth. Internet was supposed to be used for gaining information from throughout the world, but only a fraction uses it for information. Rests are being morally devaluated through the improper and non-religious publishing. Print media is also playing its role in this regard. Fashion and Movie Magazines are the main cause of wastage of money and every amidst the young generation. If a newspaper can be used, it can be misused much easily by spreading views of one political party and other rumours. Readers should be careful and judicious in selecting the type of media so that they may keep away from its harms.


Thursday, November 14, 2013

سومناتھ کی فتح سوالات اور جوابات

Metric Urdu Notes 

سوالات اور جوابات

سومناتھ کی فتح

سوال۱ حسن میمندی کون تھا اور اس نے محمود غزنوی کی خدمت میں کیا عرض کیا؟
 
جواب: حسن میمندی کا شمار محمود غزنوی کے ذہین اور وفادارارکانِ دولت میں ہوتا تھا اور یہ ایک مخبر تھا۔ ایک دن محمود غزنوی نے ارکانِ دولت کو جمع کیا اور ان سے کسی ایسی مملکت کے بارے میں پوچھا جس کو فتح کرکے خزانے کو زروجواہر سے بھردیا جائے تو سب نے سومناتھ کا نام لیا۔ حسن میمندی نے اس جگہ کے بارے میں مزید معلومات فراہم کرتے ہوئے جو کچھ عرض کیا اس کا خلاصہ ہے کہ قبلہ عالم! جس جگہ سومناتھ دیوتا ہے اس مندر میں جواہرات اتنی بڑی مقدار میں موجود ہے کہ مندر کو منور رکھنے کے لئے صرف ان جواہرات کی روشنی ہی کافی ہے۔ غرض وہاں کی ہرشے زروجواہر کا شاہکار ہے۔ وہاں بطورپجاری تقریباً دوہزار برہمن موجود ہیں۔ علاوہ اس کے لونڈیاں اور گوئیے بھی وہاں کی رونق میں اضافہ کرتے ہیں۔ ان کو تمام سہولتیں مندر سے مہیا کی گئی ہیں۔
سوال۲ ملتان سے گجرات تک کا سفر کیسا تھا اور محمود غزنوی نے اس کے لئے کیا تیاری کی؟
 
جواب: ملتان سے گجرات تک کا سفر بڑا دشوار تھا۔ محمود غزنوی کو معلوم تھا کہ راستے میں ایسے ریگستان اور چٹیل میدان ہیں کہ جہاں کوسوں تک پانی اور گھاس کا نام و نشان نہیں ملتا۔ اس لئے اس نے حکم دیا کہ ہر شخص کئی کئی دن کا کھانا پانی اپنے ساتھ لے لے۔ اور سرکارِ شاہی سے بھی دوہزار اونٹ رسد کے دانے اور گھاس پاس سے لدوا کرلیے گئے۔
سوال۳ محمود غزنوی نے تارا گڑھ کے قلعے پر حملہ کیوں نہیں کیا؟
 
جواب: محمود غزنوی نے تارا گڑھ کے قلعے پر حملہ وقت کی کمی کی وجہ سے موقوف کیا کیونکہ اس کے محاصرے میں کئی دن صرف ہوجاتے اور سومناتھ پہنچنے میں دیر ہوجاتی جس کا فتح ان کا حقیقی مقصد تھا۔
سوال۴ محمود غزنوی کے لشکر کو دیکھ کر سومناتھ کے پجاریوں نے کیا کہا؟
 
جواب: محمود غزنوی کے لشکر کو دیکھ کر سومناتھ کے مندر کے پجاریوں نے کہا ’اے مسلمانو! تم اپنی فوج اور لشکر کے گھمنڈ پر ہمیں لوٹنے آئے ہو تمہیں یہ خبر نہیں کہ دھرم پرماتما ہمارا اس واسطے تمہیں یہاں لایا ہے کہ جو جو مندر اور شوالے تم نے ہندوستان میں توڑے ہیں ان سب کی سزا یہاں دے گا۔“
سوال۵ پہلے دن کے معرکے میں جو کچھ ہوا تحریر کریں۔
 
جواب: پہلے دن کے معرکے میں محمود غزنوی پوری جنگی تیاریوں کے ساتھ میدان جنگ میں داخل ہوا۔ مسلمانوں کے جذبات میں ایک تلاطم برپا تھا۔ مسلمانوں کے اسی جوش و جذبے کے ساتھ جنگ کی ابتداءکی اور ایسے تیر برسائے کہ ہندووں کو بھاگتے ہی بنی۔ تمام ہندو مندر کے اندر جاکر چھپ گئے مسلمانوں نے فصیل تک رسائی حاصل کی اور بآواز بلند ”اللہ اکبر“ کا نعرہ بلند کیا۔ راجپوتوں کو بھی جیسے جوش آگیا۔ وہ بھی میدان میں آکر مسلمانوں سے دست بستہ ہوگئے۔ بڑا زوردار معرکہ ہوا لیکن کسی بھی فریق کی شکست کے کڑوے گھونٹ سے آشنائی نہ ہوسکی اور بالآخر دونوں فریق رات ہوتے ہی اپنے اپنے مقام پر پہنچ گئے۔
سوال۶ محمود غزنوی کے لشکری پہلے دن کے معرکے کے بعدکیا سوچ رہے تھے؟
 
جواب: اہلِ لشکر افتاں و خیزان حالت ہی میں یہ سوچنے پر مجبور تھے کہ کہاں تو وہ جنت جیسی حسین سرزمین پر سکون سے رہ رہے تھے اور کہاں اس ریگستان اور بیابان میں مفلوک حالی کی حالت میں بے دست و پا اپنے گھروں سے ہزاروں میل کی مسافت پر پڑے ہیں جہاں اللہ کے سوا کوئی ان کا ہمدرد و غمگسار موجود نہیں۔ پس اگر اللہ کو منظور ہوا تو اسی صورت میں ہم گھربار کو واپس لوٹ سکتے ہیں۔
سوال۷ جب محمود غزنوی سومناتءکا بت توڑنے لگا تو پجاریوں نے اس سے کیا کہا؟
 
جواب: جب محمود غزنوی سومناتھ کے بت کو جو کہ ہند�¶ں کے لئے ان کا عظیم ترین دیوتا تھا توڑنے لگا تو پجاری اس کے قدموں میں گرگئے اور کہنے لگے کہ اس بت کو نہ توڑو اس کے بدلے میں جتنی چاہے دولت لے سکتے ہو۔
سوال۸ محمود غزنوی نے پجاریوں کو کیا جواب دیا؟
 
جواب: اسلام کے اس قابل فخر فرزند کو پجاریوں نے دولت کا اتنا بڑا لالچ دیا لیکن ان کی تمام آہ وزاری صدا بصحرا ثابت ہوئی اور محمود نے ان کی کوئی پیش کش قبول نہیں کی اور کہا کہ میرے نزدیک بت فروش نام پانے سے بت شکن ہونا بہتر ہے۔
سوال۹ محمود غزنوی نے اپنے لشکر کے جانبازوں سے مخاطب ہوکر کیا کہا؟
 
جواب: مسلمان اپنی ناگفتہ بہ حالت سے خاصے پریشان نظر آتے تھے ایسی حالت میں محمود غزنوی نے مسلمان افواج سے خطاب کرکے انہیں کہا کہ دشمن نے ہمیں چاروں اطراف سے گھیر رکھا ہے ہم اپنے وطن عزیز سے ہزاروں میل کی مسافت پر ہیں۔ سوائے اللہ کے ہمارا کوئی مدد کرنے والا نہیں ہے۔ ہمیں اپنا حاصلہ بلند رکھنا چاہئے تاکہ ڈٹ کر دشمن کا مقابلہ کرسکیں۔ اگر ہم جیت گئے تو غازی کہلائیں گے اور اگر مرگئے تو شہید کہلائے جانے کے مستحق ہونگے اور یہی ایک مسلمان کی زندگی کا مقصد ہوتا ہے۔
سوال۰۱ محمود غزنوی کے ایمان مستحکم کا اسے کیا صلہ ملا؟  
جواب: محمود غزنوی نے پجاریوں کی پیش کش کو ٹھکرا کر گویا دنیاوی زندگی کے پرتعیش لمحات سے منہ موڑ لیا اس کا صلہ اسے دنیا ہی میں مل گیا وہ اس طرح سے کہ جب محمود غزنوی نے بت توڑا تو اس میں سے بے پناہ دولت نکلی گویا دولت ہفت قلیم حاصل ہوگئی اور یہ دولت اس دولت سے کہیں زیادہ تھی جو پجاری اسے دینے پر رضامند تھے
 
 
 

سوالات اور جوابات گزرا ہوا زمانہ

Matric Urdu Notes

سوالات اور جوابات


گزرا ہوا زمانہ

سوال۱ بوڑھا اپنے ماضی پر کیوں افسوس کررہا تھا؟
جواب: بوڑھا اپنے ماضی پر اس لئے افسوس کررہا تھا کہ اس نے پورے ماضی میں نیکی کا کوئی کام نہیں کیا تھا۔ ادھیڑ عمر میں جو کوئی نیکیاں، روزہ و نماز کے طور سے بٹوری تھیں ان میں تعلق صرف اس کی اپنی ذات اور مفاد سے تھا۔ اور نہ ہی اس نے خدمت خلق کے لئے کچھ کیا تھا۔ جبکہ سرسید کے نقط�¿ہ نظر سے دوسروں کے کام آنا ہی سب سے بڑی نیکی ہے۔

سوال۲ آنکھ کھلنے پر لڑکے نے کیا فیصلہ کیا؟
جواب: آنکھ کھلنے پر لڑکے نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنی زندگی کو نیکی اور دوسروںکی بھلائی کے کاموں میں صرف کرے گا اور رفاہِ عامہ کے کاموں کو اپنی زندگی کا مقصد بنالے گا۔ اس طرح وہ ’نیکی کی دلہن‘ حاصل کرسکتا ہے۔

سوال۳ مصنف نے اس مضمون میں اپنی قوم کے نوجوانوں کو کیا نصیحت کی ہے؟
جواب: مصنف نے اس مضمون میں نوجوانوں کو بڑی حقیقت افروز نصیحتوں سے روشناس کروایا ہے۔ مصنف کہتے ہیں کہ وقت کا چرنا چلتا چلا جاتا ہے اور زندگی کی ڈور اس پر لپٹتی چلی جاتی ہے اور بالاخر اس کا آخری سرا بھی کھینچ لیا جاتا ہے اور یہی وہ وقت ہوتا ہے جبکہ روح اپنے قالب سے جدا ہوجاتی ہے۔ اس سے پہلے ایک وقت ایسا آتا ہے جب انسان اپنی گزری ہوئی زندگی پر افسوس کرتا ہے اور سوچتا ہے کہ میں نے دنیا میں نیکیوں کے انبار میں سے کوئی بھی نیکی حاصل نہ کی اور آخرت کے لئے میرے پاس کوئی پونجھی نہیں ہے۔ مصنف اس لمحہ فکریہ کی طرف اشارہ کرکے کہتے ہیں کہ تم ایسا وقت آنے سے پہلے ہی سنبھل جا�¶ اور انسانی بھلائی کو اپنا اولین مقصد بنالو اور آخر میں مصنف دعاگو ہیں کہ خدا کرے کوئی ایسا شخص، ایسا جوان اٹھے جو مسلمانوں کے لئے خضرِ راہ کا کام سرانجام دے سکے۔

URDU APPLICATIONS AND LETTERS

خط اور درخواستیں

ٹریفک کا شعر، دھواں اور فضائی آلودگی سے متعلق اخبار کے مدیر کے نام درخواست


کمرہ امتحان
کراچی
۵۱ مارچ ۰۰۰۲ئ
مدیر محترم
روزنامہ جنگ کراچی
اسلام وعلیکم!
میں آپ کا روزنامہ باقاعدگی کے ساتھ پڑھتا ہوں۔ مجھے یہ دیکھ کر انتہائی خوشی ہوئی ہے کہ آپ نے اپنے اخبارکا ایک صفحہ عوامی شکوے ، شکایات اور مسائل کی اشاعت کے لئے وقف کردیا ہے تاکہ لوگوں کے مسائل موثر انداز میں متعلقہ حکام تک پہنچ سکیں۔
لہذا میں آپ کے اخبار کی وساطت سے متعلقہ حکام کے علم میں یہ بات لانا چاہتا ہوں کہکراچی کی روز بروز آبادی بڑھتی ہی چلی جارہی ہے۔ اس ہی لحاظ سے مسلسل ٹریفک میں اضافہ ہورہا ہے۔ گنجان آباد اور بازاروں میں سڑکوں کی تعمیر کے وقت بڑھتی ہوئی آبادی کا خیال نہیں رکھا گیا۔ مزید یہ کہ ناجائز تجاویزات کی وجہ سے سڑکیں اور گلیاں تنگ ہوگئی ہےں۔ اس لئے ہروقت ٹریفک جام رہتا ہے۔ ڈرائیور حضرات ایک دوسرے سے آگے نکلنے، سواریاں زیادہ سے زیادہ اٹھانے کے لئے ہارن پر ہارن بجاتے ہیں اور گاڑےوں سے دھواں چھوڑتے رہتے ہےں۔ ان سے اتنا دھواں خارج ہوتا ہے کہ دم گھٹنے لگتا ہے۔ شوروغل کی وجہ سے انسانی سماعت بھی متاثر ہوتی ہے۔ لاقانونیت کا یہ عالم ہے کہ اسکول، مدرسہ، اسپتال اور مسجد کچھ نہیں دیکھتے اور ہارن کے شور کے ساتھ ٹیپ ریکارڈر کا شور بھی شامل کردیتے ہیں۔ اگر ٹریفک کا شور اور دھواں اسی طرح بڑھتا رہا تو لوگوں کی سماعت، انکے دل اور پھیپھڑے متاثر ہونگے اور کئی طرح کی نئی نئی بیماریاں جنم لیں گی اس لئے حکومت کو چاہئے کہ وہ ابھی سے اس مسئلہ کا حل تلاش کرے۔
امید کرتا ہوں کہ آپ میری یہ عرضداشت حکامِ بالا تک پہنچانے کا ذریعہ بنےں گے اور متعلقہ حکام معاملے کی نزاکت کو محسوس کریں گے اور احساسِ ذمہ داری سے کام لیتے ہوئے اس مسئلے کے جلد حل کے لئے موثر اقدامات کریں گے۔

فقط
آپکی عنایتوں کا طالب
ا - ب -ج

بجلی کے قلت سے متعلق اخبار کے مدیر کے نام ایک مراسلہ


کمرہ امتحان
کراچی
۵۱ مارچ ۰۰۰۲ئ
مدیر محترم
روزنامہ جنگ کراچی
اسلام وعلیکم!
جناب میں آپ کے اخبار کی وساطت سے ایک اہم مسئلہ کی طرف محکمہ بجلی (k.e.s.c.) کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں بڑی مہربانی ہوگی۔ آپ میری یہ تحریر مراسلات کے کالم مےں اولین فرصت میں شائع فرمائیں۔
ہمارے علاقے میںبجلی کی آنکھ مچولی روزانہ کا معمول بن چکی ہے۔ کبھی کبھی تو بجلی گھنٹوں تک نہیں آتی ستم بالائے ستم یہ کہ اکثر بجلی عین رات کو اس وقت چلی جاتی ہے جب ہم امتحان کی تیاریوں میں مصروف ہوئے ہیں۔ ہمارا موڈ خراب جوجاتا ہے۔ حوصلے اور امنگ پر اوس پڑجاتی ہے اور پھر وہ پھر وہ پہلی سی گرمجوشی نہیں رہی۔ اس سے ہمارا وقت ضائع ہوتا ہے اور امتحان میں ہماری کارکردگی متاثر ہوسکتی ہے۔
امید کرتا ہوں کہ متعلقہ حکام معاملے کی نزاکت کو محسوس کریں گے اور احساسِ ذمہ داری سے کام لیتے ہوئے بجلی کے انتظام کو جلد ازجلد درست کریں گے۔

فقط
آپکی عنایتوں کا طالب
ا - ب -ج




امتحان کی تیاری کے لئے چھوٹے بھائی کو خط


کمرہ امتحان
کراچی
۵۱ مارچ ۰۰۰۲ئ
پیارے بھائی،
خوش رہو
تین دن قبل تمہارا خط پاکر مجھے بہت خوشی ہوئی۔ تم نے بتایا کہ ڈیڑھ مہینہ بعد تمہارے امتحان ہورہے ہیں اور یہ سن کرمجھے بہت خوشی ہوئی کہ تم امتحان کی تیاریوں میں مصروف ہو۔
میں تمہیںاپنے تجربات و مشاہدات کی روشنی میں چند ہدایات دے رہا ہوں اور ان پر عمل کرکے انشاءاللہ تم امتحانات میں نمایاں کامیابی حاصل کرسکتے ہو۔ مجھے امید ہے کہ تم میرے مشوروں پر عمل کرنے کی پوری کوشش کروگے۔
سب سے پہلے تو تم آج ہی اپنا روزمرہ کا ایک ٹائم ٹیبل بنالو اور اس میں نصاب کے تمام مضامین کے لئے وقت مقرر کردو کسی ایک مضمون کو بھی اپنی توجہ سے محروم نہ رکھو۔ یہ تمہارے لئے باعثِ نقصان ہوگا۔ اپنا مقررہ اوقات پر عملدرآمد کے لئے تمہیں صبح سویرے اٹھنا ہوگا فجر کی نماز کے بعد اور اسکول جانے کی تیاری تک کچھ نہ کچھ ضرور یاد کرلو۔ کوئی بھی عنوان یاد کرو اسے لکھ کر ضرور دیکھناچاہئے۔ نصاب کی کتابوں میں جو بھی مشکلات پیش آئیں ان کے لئے فوراً اساتذہ کرام سے تعاون حاصل کرنا چاہئے۔ شام کے وقت کھیل کود میں بھی ہصہ لینا چاہئے۔ اہم کاموں کے علاوہ دیگر کاموں میں وقت ضائع نہ کرو۔ زیادہ سے زیادہ وقت پڑھائی کرنے کی کوشش کرو۔ اور رات کو جلد سوجا�¶ تاکہ صبح کو جلدی اٹھ سکو۔
میں اور تمام گھر والے تمہاری کامیابی کی دعا کریں گے اور ہم انتظار کررہے ہیں کہ کب تم امتحان سے فارغ ہوکر گھر ٓآو گے۔

فقط
تمہارا بڑا بھائی
ا - ب -ج



پانی کی قلت سے متعلق کونسلر کے نام درخواست

کمرہ امتحان
کراچی
۵۱ مارچ ۰۰۰۲ئ
بلگرامی جناب کونسلر صاحب
کراچی ۸۳ زون
اسلام وعلیکم!
نہایت ادب سے آپ کی توجہ اس امر کی جانب مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ ہمارے علاقے پانی کی شدید قلت ہے۔ گرمی اپنے عروج پر ہے اور ہمارے علاقے میں پانی کا یہ حال ہے کہ کئی دن تک پانی بالکل نہیں آتا اور اگر بھولے سے آبھی جائے تو اتنی قلیل مقدار میں کہ استعمال کے لئے ناکافی ہوتا ہے۔ جسکی وجہ سے ہمیں سخت پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ گرمی روز بروز بڑھتی چلی جارہی ہے اور پانی کی قلت کا یہ حال ہے کہ کئی کئی دن بغیر نہائے گزر جاتے ہیں۔ تمام محلہ والوں کی جان عذاب میں پڑی ہوئی ہے۔
آپ کی خدمت میں گذارش ہے کہ متعلقہ حکام پر زور دیں تاکہ وہ ہمیں اس مشکل سے نجات دلائیں اور پانی کا انتظام بہتر کریں۔

شکریہ
آپکی توجہ کا طالب
ا - ب -ج


حادثات کی زیاد تی سے متعلق اخبار کے مدیر کے نام درخواست


کمرہ امتحان
کراچی
۵۱ مارچ ۰۰۰۲ئ
مدیر محترم
روزنامہ جنگ کراچی
اسلام وعلیکم!
میں آپ کا روزنامہ باقاعدگی کے ساتھ پڑھتا ہوں۔ مجھے یہ دیکھ کر انتہائی خوشی ہوئی ہے کہ آپ نے اپنے اخبارکا ایک صفحہ عوامی شکوے ، شکایات اور مسائل کی اشاعت کے لئے وقف کردیا ہے تاکہ لوگوں کے مسائل موثر انداز میں متعلقہ حکام تک پہنچ سکےں۔
لہذا میں آپ کے اخبار کی وساطت سے متعلقہ حکام کے علم مےں یہ بات لانا چاہتا ہوں کہ کراچی میں روزانہ حادثات ہوتے رہتے ہیں۔ اخبارات پڑھکر طبیعت پریشان ہوتی ہے اس کی روک تھام کے لئے کچھ نہ کچھ کرنا چاہئے۔ اگر حکام غیر قانونی تجاویزات ختم کرادیں، پارکنگ کے لئے مناسب جگہیں مقرر کریں، ہیوی ٹریفک کو صرف اور صرف رات کے وقت بازارون میں سامان لانے اور لے جانے کی اجازت ہو۔ دن میں انکا داخلہ ممنوع ہو۔ مصروف بازاروں اور سڑکوں پر کنٹرول کے لئے ٹریفک پولیس موجود رہے۔ بس وغیرہ اپنے مقررہ اسٹاب کے علاوہ کہیں نہ رکیں، ریس لگانے ، اوور ٹیک کرنے اور غلط پارکنگ کرنے والے ڈرائیوروں کو سخت اور موقع پر ہی سزا دی جائے اور عوام بھی ڈرائیوروں کو ٹیپ چلانے اور گاڑیاں بھگانے سے باز رکھیں تو کافی حد تک حادثات میں کمی ہوسکتی ہے۔
امید کرتا ہوں کہ آپ میری یہ عرضداشت حکامِ بالا تک پہنچانے کا ذریعہ بنےں گے اور متعلقہ حکام معاملے کی نزاکت کو محسوس کریں گے اور احساسِ ذمہ داری سے کام لیتے ہوئے اس مسئلے کے جلد حل کے لئے موثر اقدامات کریں گے۔

فقط
آپکی عنایتوں کا طالب
ا - ب -ج



اپنے دوست یا بھائی کے نام خط لکھئے جس میں تعلیم کی اہمیت پر روشنی ڈالئے


کمرہ امتحان
کراچی
۵۱ مارچ ۰۰۰۲ئ
میرے پیارے دوست،
اسلام وعلیکم
تمہارا خط ملا۔ پڑھ کر تعجب ہوا کہ تم تعلیم یافتہ بیروزگار نوجوانوں کو دیکھ دیکھ کر تعلیم سے اکتانے لگے ہو اور اب تمہارا دل تعلیم حاصل کرنے مےں نہیں لگ رہا ہے۔ یہ کسی قسم کی مایوسی کی باتیں کرنے لگے ہو۔ تم تو ہمیشہ شاندار مستقبل اور عزم و ہمت کی باتیں کرتے تھے۔
کل ہی میں نے تمہاری کتاب میں ڈپٹی نذیر احمد کا خط دیکھا۔ کتنی عمدہ بات انہوں نے اپنے بیٹے کو لکھی ہے کہ رزق و نوکری تو انسان کو اپنے مقدر سے ملتی ہے۔ علم اس لئی حاصل کرو کہ تمہارے اندر علمیت، قابلیت اور لیاقت پیدا ہوتا ہے کہ ہم عصروں میں انفرادیت اور ممتاز حیثیت حاصل کرسکو۔ جہاں جاو لوگ عزت تعظم کریں اور تم ہی سب کی نگاہوں کا مرکز ہو۔
انسان کو اشرف المخلوقات ہونے کا شرف علم و آگہی کی بدولت حاصل ہے۔ دین و دنیا کی تمام تر ترقیاں اور بلندیاں علم ہی کے دم سے ہیں۔ اس لئے اسلام نی سب سے زیادہ زور دلم حاصل کرنے پر دیا ہے۔ علم کے سمندر مےں جتنے غوطے لگاو گے اتنے ہی نکھر کر اوپر آوگے۔ علم حاصل کرنے کے لئے مہد سے لحد تک کوئی وقت کی قید نہیں۔ ہاں عزم و ہمت اور مسلسل جدوجہد کامیابی و کامرانی کا زینہ ہے۔
تم بہت محنتی ہو۔ کاش! تم بھی اپنے اسلاف کی طرح کوئی ایسا علمی کارنامہ انجام دو کہ تمہارے علم و فضل سے قوم، ملک اور مذہب و ملت کو فائدہ پہنچے

فقط
تمہارا دوست
ا - ب -ج

Tuesday, November 12, 2013

English Essay

TERRORISM

 OR 
TERRORISM IN PAKISTAN


Terrorism means to use violence to affright people for political resoluteness. It is also misused to organisation or provide to minify the spirit of others. In prescribe to occurrence one's sentiment. This one is the most serve-problem of the present age that people, all over the land as advisable as the undivided Gear Class are protection this devilishness. The essential causes of terrorism are exclusive to egest the political spot of the glob in sure. Terrorism becomes or may embellish end personalty of meaning and too such anxiousness.

The causes of terrorism ever are the Iniquity, malevolence and venom and its very great aim, cerebration or intention is win, illegality, demolition and emit going to acquitted lives and properties. This wicked devastation forces are ever in activeness and they stay willing to create governmental misadministration in the region. Coercion is the lowest taxon of barbarism. A wild production is e'er supposed as coercion for it generates. These are multitudinous terrorists groups in mechanism in the experience who are always work in their black terimental actions.

Pakistan semipolitical environs has been real overmuch psychoneurotic not a lone polity could be competent to base itself for the nominal point. During this structure of reading the value of depravity enhanced really some. The graph of criminal activities upraised due to the answerableness forces. The regulation of political knowing has been raining speedily. Coercion generates strains and anxiousness to the decent and downright someone of the earth. It is an afford contest to our governing, the law enforcing agencies and word agencies to conflict against this devilish instrument.

Who is accountable for this vulgarity? The serve is that who proposes to transfer the serene part into contemptible and these are the terrorist who activity with the lives of exonerated imperfect brings for covetousness of money around which they do not bed that this money is transitory action which they do not cognise that everything in this humanity leave rest here when he gift go into the representative of decease.

At this leg it has metamorphose most basic to contact out terrorism structure the scope of the glob and to everyone extant this Bag Grouping and Pakistan in special, should be provided their rights on the bases of realistic meet.
 
 

ISLAMIAT NOTES

Aqeeda-e-Toheed عقیدہ توحید

ابتدائیہ
کہو اللہ ایک ہے۔ اللہ بے نیاز ہے نہ وہ کسی کا باپ نہ کسی کا بیٹا اور نہ کوئی اس کا ہمسرہے۔
مندرجہ بالا سورة قرآ ن مجید کی وہ مختصر سورة ہے جو مسلمانوں میں سب سے زیادہ تلاوت کی جاتی ہے۔ اس سورة کی ہر آیت میں عقیدہ توحید کی جانب نشاندہی کی گئی ہے۔ اور ہر حوالے سے خدائے ذوالجلال کو احد قرار دیا ہے۔ اس سورة کی ابتداءمیں جو مخاطبانہ اندازِ بیان اختیار کیا ہے وہ اس لئے کہ مسلمان پہلے اپنے اندر عقیدہ توحید کو پختہ کریں پھر اسلام کی باقی تعلیمات پر عمل کریں۔ اس میں ہر ذی شعور اور صاحب عقل انسان کو توحید کا درسِ عام دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ اگر ہم کلمہ طیبہ پر غور کریں تو اس سے بھی ہمیں یہ درس ملتا ہے۔
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
ترجمہ : نہیں کوئی معبود سوائے اللہ کہ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ یعنی اسلام کا باب اسلام کی تعلیمات اور تمام معاملات کا نچوڑ توحید سے شروع ہوتا ہے اور توحید ہی پر ختم ہوتا ہے۔

لغوی و شرعی معنی

توحید کے لغوی معنی ایک ماننا اور ایک جاننا ہے۔ شریعت کی اصطلاح میں توحید ورعقیدہ�¿ توحید یہ ہے کہ اللہ تعالی کو ذات و صفات میں ایک مانا جائے اور اس کے تمام احکامات پر سختی سے عمل کیا جائے۔
 
تمام مذاہب کی تلقین
 
حضرت آدم عہ سے لے کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک جتنے بھی پیغمبرانِ دین گزرے ہیں وہ سب توحید ہی کا پیغام لے کر دنیا پر نازل ہوئے۔ کوئی بھی یہودیت، عیسائیت اور اسلام لے کر نہیں آیا تھا۔ بلکہ سب کا مقصد یہ تھا کہ لوگ کسی نہ کسی خدا کا اعتراف کریں اور اپنے اندا عقیدہ توحید کو پختہ کریں۔ سب کی شریعتوں نے عبادات کے مختلف طرقے بیان کئے مگر بتوں، خداوں اور درختوں کی پوجا میں سب نے کسی نہ کسی خدا کا اعتراف ضرور کیا۔  
الہ کا مفہوم
 
قرآن مجید کی رو سے الہ کا مفہوم یہ ہے کہ کوئی ایسی ذات ہو جو تمام حلقہ زندگانی میں خودمختار ہو، مطلقِ کل ہو، رازق ہو، معبود ہے۔ کلمہ طیبہ کے لفظ میں پوشیدگی کا مفہوم بھی پایا جاتا ہے۔ اس کے معنی وہیں ہیں جو ہندو مذہب میں دیوتا، عیسائیت میں گاڈ (God)اور دیگر مذاہب میں خدا کا ہے۔ کلمہ نے بیان کیا کہ الہ ایک ایسی بابرکت ذات ہے جس کا اسمِ مبارک اللہ ہے۔ یعنی اس وسیع و عریض کائنات میں سوائے اللہ کے اور کوئی ذات ایسی نہیں جو پوجنے کے لائق ہو۔ تم اللہ کے سوا جسے پوج رہے ہو وہ تو محض بت ہیں اور تم ایک جھوٹ گھڑ رہے ہو وہ تمہیں رزق دینے کا اختیار نہیں رکھتے ہیں۔ اللہ کے یہاں سے رزق مانگو اور اسی طرح کی عبادت کرو اس کا شکر ادا کرو اور اسی کی طرف پلٹائے جاو گے۔ اللہ کے سوا کسی دوسرے کو معبود نہ بناو کہ ملامت کے مارے بے کس ہو کر پتھر ہو جاو اور ہمارے پرودگار نے فرمادیا ہے کہ کسی کی عبادت نہ کرو مگر صرف اللہ کی۔
توحید کے دلائل
 
اگر کوئی صاحب عقل اور ذی شعور انسان اپنے ارد گرد کے ماحول پر نظر ڈالے اور ذرا سا غوروفکر سے کام لے تو باآسانی عقیدہ توحید کو سمجھ سکتا ہے۔ حالات و واقعات اس خوبصورت سے توحید کا درس دیتے ہیں کہ انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے اگر اس کے باوجود بھی کوئی شخص اس پر ایمان نہ لاتا اور اللہ کے ہونے سے انکار کرتا ہے تو اس سے زیادہ بیوقوف اور محروم اور کوئی نہیں۔

(۱) وسیع و عریض نظامِ کائنات

سورة ال عمران میں ارشادِ باری تعالی ہے: بے شک آسمان اور زمین کا بنانا دن اور رات کا آنا جانا اس میں نشانیاں ہیں عقلم مند لوگوں کے لئے۔
اگر ہم اس وسیع و عریض کائنات پر غور کریں اور اس سسٹم کا بغور جائزہ لیں تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ یہ کائنات نہایت وسیع ہے۔ ہمارے سامنے تو صرف یہ زمین ہے جس کی وسعت کا ثبوت دینے کے لئے صرف اتنا کہنا ہی کافی ہوگا کہ جدید سہولتوں کے استعمال کے باوجود اس کے سفر میں کئی دن لگ جاتے ہیں۔ پھر اگر ہم سورف پر نظر ڈالیں جو زمین سے ہزاروں سال کے فاصلے پر ہے اور اسی طرح دیگر سیارے جن میں سے زمین کے برابر، کچھ چھوٹے اور کچھ اس سے بھی بڑے ہیں۔ یہ تمام دنیا و سورج اور دیگر سیارے ایک ہی گلیکسی (Galaxy) میں موجود ہیں۔ پھر اس جیسی اربوں (Galaxies) اسی ایک آسمان میں سموئی ہوئی ہیں۔ قرآن مجید کی رو سے اس کائنات میں سات آسمان ہیں اگر ہم زرا دیر کو سوچیں کہ اس وسیع و عریض نظام جس میں زرا برابر بھی نقص نہیں ہے ایک سے زائد خدا چلارہے ہوتے تو یہ سب پل بھر میں تباہ ہوجاتا۔ سب پر غالب اور سب پر حاکم تو ایک ہی قوت ہوسکتی ہے۔
کیا ان لوگوں نے نظر اٹھا کر اپنے اوپر آسمان نہیں دیکھا ہم نے اس کو کیسے سجایا اور اس کے منظر کو کس طرح سجایا اور اس میں کہیں کوئی شگاف نہیں اور اس طرح زمین پر غور کرو ہم نے اس کو فرش کی طرح پھیلا دیا اور اس پر پہاڑوں کے لنگر ڈال دیئے۔ پھر اس میں قسم قسم کی نباتا اگائی بصیرت، ہدایت اور یاددہانی کا سامان ہے یہ اور اس بندے کے لئے جو حق کی طرف رجوع ہو۔
قرآنِ پاک میں ارشادِ باری تعالی ہے:
اور زمین میں جتنے درخت ہیں اگر وہ سب قلم بن جائیں اور سمندر روشنائی جسے پھر سات سمندر روشنائی مہیا کرے پھر بھی اللہ کی باتیں ختم نہ ہونگی۔ بلاشبہ اللہ غالب اور حکمت والا ہے۔

(۲) علوم و فنون کی معراج - توحید

اور وہ آسمان و زمین کا موجد ہے اور جب وہ کسی بات کا فیصلہ کرتا ہے تو اسکے لئے صرف یہی حکم دیتا ہے کہ ہوجاو تو وہ ہوجاتی ہے۔
جدید سائنس اور علوم دورِ حاضر میں اپنی معراج کو پا چکیں ہیں۔ یہ تمام علوم و فنون آج اس نتیجہ پر پہنچ چکیں ہیں کہ اللہ تعالی کا نظامِ قدرت انسانی فطرت کے عین مطابق ہے۔ مثال کے طور پر فزکس کی رو سے کائنات کا ہر زرہ جمال چھوٹے چھوٹے (atoms) یا (Molecules) سے بنا ہے۔ ان (atoms) میں (electrons) پائے جاتے ہیں جو ایک مدارکے گرد گردش کرتے ہیں۔ یہ بات انسانی تحقیق کے بعد سامنے آئی ہے جبکہ اسلام نے قدرت کا یہ طرز’ عمل بہت پہلے واضح کردیا تھا۔ اسلام نے حج میں طوافِ کعبہ کا طریقہ متعین کیا۔ وہ تمام ان اشیاع سے مطابقت رکھتا ہے جو ایک دائرے میں گردش کررہی ہے اور (electrons) بھی (Molecules) میں یہی طریقہ اپنائے ہوئے ہیں۔ یہ تمام حقائق و واقعات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ اس کائنات کو چلانے والی ذات ایک الہ ہی ہے اور اسی کا نظام قدرت کی ہر شے پر نافذ ہے۔
قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:
نہ سورج کی مجال ہے کہ چاند کو پکڑ سکے اور رات دن سے پہلے آسکتی ہے یہ سب ایک ہی دائرے میں تیر رہے ہیں۔

(۳) پیمانہ فکر (اگر ایک سے زیادہ خدا ہوتے؟)

اگر کسی کمپنی کو ایک سے زیادہ مالکان چلائیں تو عام مشاہدے میں یہ بات آتی ہے کہ چھوٹے چھوٹے اختلافات ہر وقت موجود رہتے ہیں اور یہی چھوٹے اختلافات بڑے جھگڑوں کی شکل اختیار کرلیتے ہےں۔ غرض اس نظام کی تباہی کا سبب بنتے ہیں۔
خود ہی سوچئے کہ اگر اس زمین و آسمان کو چلانے والے ایک سے زائد خدا ہوتے تو کیا اس کرہ ارض میں انسانوں اور دیگر مخلوقات سکون و چین کے ساتھ زندگی بسر کرتے اور کیا نظام کائنات بہتر طور پر چل سکتا ہے۔ بعض مذاہب ہیں تو یہ حال ہے کہ ان کا کھانے پینے کا الگ خدا ہے، بارش کا الگ اور دوسرے معاملات کا الگ خدا۔ غرض ہر شعبہ زندگانی کا ایک الگ اور نیا خدا متعین ہے اور تمام خدا ایک دوسرے کے محتاج کی وجہ سے اپنی مرضی سے کوئی بھی کام نہیں کرسکتے غرض انسانی فکر سے یہ بات واضح ہوگئی کہ اس کائنات کو چلانے والے خداوں کی تعداد ایک سے زائد ہونا ناممکن ہے۔
سورة الانبیاءمیں ارشاد ہوتا ہے:
اگر دونوں (زمین و آسمان) کو چلانے والے اللہ تعالی کے علاوہ معبود ہوتے تو دونوں (زمین و آسمان) میں فساد برپا ہوجاتا۔
شرک
 
شرک سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالی کی ذات میں کسی دوسرے کو حصہ دار یا ساتھی ٹھہرایا جائے۔ قرآن مجید میں شرک کو بہت بڑا گناہ قرار دیا گیا ہے: بے شک شرک بہت بڑا بھاری ظلم ہے۔
ایک اور جگہ ارشاد ہوتا ہے:
اللہ یہ بات معاف نہیں کرتا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک بنایا جائے۔
قرآن مجید کی رو سے شرک کی تین اقسام ہیں:

(۱) ذات میں شرک (۲) صفات میں شرک (۳) صفات کے تقاضوں میں شرک
صفات کے تقاضوں میں شرک سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالی جن خصوصیات کا مالک ہے ان کے علاوہ کسی اور کو ان خصوصیات کا ساجھی ٹھہرایا جائے۔ اسی سے مدد طلب کی جائے اور اس کی بندگی و غلامی کی جائے۔ صفات کے تقاضوں میں
شرک علماءکرام کے نزدیک گناہِ عظیم ہے۔ ارشادِ باری تعالی ہے:
اور پکڑتے ہیں اللہ کے سوا کہ شائد ان کی مدد کریں۔ نہ کرسکیں گے ان کی مدد اور یہ ان کی فوج در فوج پکڑی جائے گی۔
سورة ھود مےں ارشادِ باری تعالی ہے:
خدا ہی کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔

عقیدہ توحید کے اثرات
توحید وہ عقیدہ ہے جس پر ایمان رکھتے ہوئے انسان کی شخصیت نکھر جاتی ہے اور اللہ تعالی کی رحمتیں نازل ہوتیں ہیں۔
عقیدہ توحید کے انسانی زندگی پر مندرجہ ذیل اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

(۱) اطمینانِ قلب و روح  
جب انسان اس بات پر یقین کرلیتا ہے کہ اس کا معبود ایک ہے، رازق ایک ہے اور وہ تمام اشیاع پر قدرت رکھتا ہے تو وہ یکسوئی کے ساتھ اسی ایک معبود کی عبادت کرتا ہی ۔ اس خالص بندگی سے اسے جو رجائیت اور اطمینانِ قلب نصیب ہوتا ہے وہ اسے زندگی کی شاہراہ پر رواں رکھتا ہے اور وہ آسانی سے اپنی زندگی کامنشاءپالیتا ہے۔
(۲) خودداری  

معبود واحد کا یقین انسانی شخصیت میں خودداری پیدا کرتا ہے۔ وہ اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ اس کا پالنے والے اللہ ہے اس لئے کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتا اور خودداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے عزت افروز زندگی بسر کرتا ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ: اپنا منہ سب کی طرف سے پھیر کر دین فطرت کی طرف کرلو۔
(۳) پاکیزگی نفس
 
عقیدہ توحید پر پختہ یقین انسان کو اپنے نفس کی حفاظت پر آمادہ کردیتا ہے۔ وہ اپنے نفس کی پاکیزگی کو بڑھانے کے لئے اللہ تعالی کے احکامات کی پیروی کرتا ہے اور قرب الہی کی بدولت اپنے نفس کی پاکیزگی کو بڑھانے کے لئے اللہ تعالی کے احکامات کی پیروی کرتا ہے اور قربِ الہی کی بدولت اپنے نفس کی پاکیزگی و تقوی کے اضافے کے لئے کوشاں رہتا ہے۔
(۴) بہادری
 
جب انسان اس بات پر یقین کرلیتا ہے کہ وہ ایک اللہ کا بندہ ہی اور وہی اللہ اس کی حفاظت کررہا ہے تو اس میں بہادری اور جانثاری کے جذبات پیدا ہوجاتے ہیں۔ یہی مردِ مومن جب میدانِ عمل مین قدم رکھتا ہی تو یہ بہادری اسے اپنے سے دس گنا طاقت کے دشمن سے لڑنے پر آمادہ کردیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں نے کم تعداد کے باوجود کفارومشرکین کی بڑی بڑی فوجوں کو شکستِ فاش دی اور غزوات میں کامیابی سے ہمکنار ہوئے۔

حرفِ آخر


اسلام نے اسی عقیدے کو بنیاد بنا کر تمام نماز و روزے کی ابتدا میں دعا سکھائی ہے:
سب تعریفےں تمام عالموں کے رب کے لئے ہیں جو نہایت رحمن و رحیم ہے۔ اے اللہ! ہم تیری عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔ دکھادے تو ہم کو سیدھا راستہ۔ ان لوگوں کا راستہ جن پر تونے انعام کیا ناکہ ان لوگوں کی راہ جن پر تونے غضب کیا۔ (آمین!)

URDU 2ND YEAR (New Book Modal Paper)